ایک اور جگہ ارشادربانی ہے: ﴿فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْتَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ﴾ (البقرۃ: ۲۲۹) ’’پھر خواہ رکھ لینا قاعدے کے موافق یا چھوڑ دینا خوش عنوانی کے ساتھ۔‘‘ اور اس کے حق میں بعض حقوق کی ادائیگی کو ایسے ہی لازم کیا ہے جیسا کہ اس کے شوہر کے حق میں اس پر حقوق کی ادائیگی کو لازم کیا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاِنْ کَرِہْتُمُوْہُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًاo﴾ (النساء: ۱۹) ’’اگر تمہیں وہ بری لگیں تو عنقریب جس چیز کو تم ناپسند کرتے ہو ان میں اللہ تمہارے لیے خیر رکھیں گے۔‘‘ ان آیات کے بعد احادیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو سرور دو عالم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جامع کلام سے میاں بیوی کو آپس میں نیکی و بھلائی کے ساتھ تعلقات استوار رکھنے کا حکم فرمایا، چنانچہ حدیث میں مذکور ہے کہ: ’’ اخلاق میں بہترین لوگ مومنین میں ایمان کے اعتبار سے کامل ترین ہیں اور تم لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے لیے سب سے اچھے ہیں ۔‘‘ (اخرجہ الترمذی و قال حسن صحیح) اس طرح ایک اور حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم میں سے بہترین شخصیت وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہے اور میں تم میں سب سے زیادہ اپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہوں ۔‘‘ (اخرجہ الترمذی من حدیث عائشۃ) اور سنت مطہرہ نے بیوی کے ساتھ حسن سلوک کو خوب کھول کر واضح کیا ہے۔ چنانچہ ایک صحابی معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ نے رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ : ’’ہم میں سے کسی کی بیوی کا اس پر کیا حق ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: |
Book Name | رسول اللہ ص کی سنہری وصیتیں |
Writer | شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ الحاج |
Publisher | جامعہ احیاء العلوم للبنات الاسلام مظفر آباد |
Publish Year | |
Translator | شفیق الرحمن الدراوی |
Volume | |
Number of Pages | 158 |
Introduction |