Maktaba Wahhabi

100 - 158
شخص سے محبت کرتے ہیں ، اس کی قدر کرتے ہیں اور اس کو بڑا درجہ دیتے ہیں تو بس اس کی صرف یہ ایک ہی فضیلت کافی تھی اور اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے کہ امانت داری دراصل اللہ کے حکم کی فرمانبرداری ہے، اللہ کا فرمان ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَہْلِہَا﴾ (النساء: ۵۸) ’’اللہ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم امانت اس کے اہل تک پہنچاؤ۔‘‘ اسی طرح یہ مومن کی امتیازی صفات میں سے ہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے کہ: ’’اس شخص کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں جس میں امانت داری کی صفت نہ ہو۔‘‘ (اخرجہ الطبرانی و ابن حبان) اور مؤمنین میں کامل ترین ایمان اللہ رب العزت کے انبیاء اور اس کے رسولوں کا ہے ان میں سے ہر ایک نبی و رسول اپنی قوم سے یہ کہتے تھے: ﴿اِِنِّی لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌo﴾ (الشعراء: ۱۰۷) ’’بلاشبہ میں تمہارے لیے (بھیجا گیا) امانت دار رسول ہوں ۔‘‘ اسی لیے امانت خیر القرون میں امتیازی صفت کا درجہ رکھتی تھی۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’سب سے زیادہ بہترین لوگ میرے موجودہ زمانے کے لوگ ہیں پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے۔ پھر ان کے بعد ایک ایسی قوم آئے گی جو (ایسے وقت میں ) گواہی دیں گے (جبکہ) ان سے گواہی دینا طلب نہ کیا جائے گا (یعنی بلا ضرورت جھوٹی گواہی دیں گے) اور (لوگوں کے اموال میں ) خیانت کریں گے اور (اسی وجہ سے) ان کے پاس امانت نہ رکھوائی جائے گی … الحدیث۔‘‘ (متفق علیہ) مسلمان کی زندگی میں امانت کی اہمیت کیو پیش نظر رکھتے ہوئے شریعت نے اس امتیازی صفت سے اپنے آپ کو آراستہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ حتیٰ کہ خائن لوگوں سے امانت
Flag Counter