Maktaba Wahhabi

72 - 158
’’اطاعت صرف نیکی کے کاموں میں ہے۔‘‘ (متفق علیہ) کیونکہ مطلقاً اطاعت (یعنی ہر بات ماننا چاہے خواہ جیسے بھی ہو) خصائص الٰہیہ میں سے ہے۔ لہٰذا حکمران جب کسی گناہ یا شرع کے مخالف کام کا حکم دیں تو نہ ہی ان کی بات سنی جائے گی اور نہ ہی مانی جائے گی۔ چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’مسلمان بندے پر سننا اور ماننا (امیر کی بات) اس کی پسندیدہ اور ناپسندیدہ باتوں میں جب تک لازم ہے جب تک کہ اسے کسی برائی کا حکم نہ دیا جائے اور جب اسے برائی کا حکم ملے تو نہ ہی سننا ہو گا اور نہ ہی ماننا۔‘‘ (متفق علیہ) لہٰذا خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہ ہو گی۔ اور ان احادیث میں ایک انتہائی گہری تنبیہ موجود ہے جو کہ اکثر و بیشتر لوگوں پر پوشیدہ ہے وہ یہ ہے کہ معصیت میں ان کی اطاعت نہ کرنے سے ان پر خروج لازم نہیں آتا، بلکہ اس برائی کو نہ کنا جسے کرنے کا حکمرانوں نے اسے حکم دیا ہے، بقیہ امور میں اطاعت کے لزوم کے ساتھ ہو گا جس پر کثرت سے نصوص حدیث کی دلالت اور وضاحت آئی ہے جو کہ کچھ پہلے ہم نے پیش بھی کیں ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا خلیفہ معتصم باللہ اور واثق باللہ کے ساتھ قصہ سلف صالحین کے مفہوم کو صحیح سمجھنے کی ایک مثال ہے۔ کیونکہ واثق اور معتصم باللہ دونوں خلق قرآن کے قائل تھے تو احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ان پر اس بات کا انکار کیا تھا، اس کے باوجود بقیہ تمام امور میں ان کی اطاعت کی ؛اور ان دونوں خلیفوں پر خروج سے منع فرمایا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ امراء/حکام کا حکم سننا اور ماننا اوران سے محبت یہ دونوں علیحدہ چیزیں ہیں ؛ جیسا کہ فسق و فجور اور ظلم کی وجہ سے ان سے بغض رکھنے سے ان پر خروج لازم نہیں آتا۔ اسی مقام پر آ کر قدم ڈگمگا جاتے ہیں اور لغزشیں وجود میں آتی ہیں اور اسی بات اور مفہوم کو صحیح نہ سمجھنے کے سبب بہت سا فساد برپا ہواہے ۔ پھر بعض اوقات امراء کی جملہ امور
Flag Counter