جب وہ یہ کرے تو اب رعایا پر لازم ہے کہ اپنے امیر کی بات سنیں اور مانیں ۔‘‘ اور فخر الرازی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ﴿وَ اِذَاجَآئَ ہُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ وَ لَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَ اِلٰٓی اُوْلِی الْاَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْہُمْ وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُہٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیْطٰنَ اِلَّا قَلِیْلًاo﴾ (النساء: ۸۳) ’’اور جب ان لوگوں کو کسی امر کی خبر پہنچتی ہے خواہ امن ہو یا خوف تو اس کو مشہور کر دیتے ہیں اور اگر یہ لوگ اس کو رسول کے اور جو ان میں سے امور کو سمجھتے ہیں ان کے حوالے پر رکھتے تو اس کو وہ حضرات تو پہچان ہی لیتے جو ان میں سے اس کی تحقیق کر لیتے اور اگر تم لوگوں پر اللہ کا فضل اور رحمت نہ ہوتی تو تم سب کے سب شیطان کے پیرو ہو جاتے بجز تھوڑے سے آدمیوں سے۔‘‘ کہ ’’اولی الامر‘‘ میں دو قول ہیں : پہلا یہ کہ اس سے مراد اہل علم اور اہل رائے حضرات ہیں ۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ جنگی دستوں کے امیر مراد ہیں ۔ اور علماء نے اس قول کو پہلے قول پر ترجیح دی ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ کیونکہ ’’اولی الامر‘‘ وہ حضرات ہوتے ہیں جن کا لوگوں پر حکم چلتا ہو جبکہ اہل علم حضرات حکمرانوں کی طرح نہیں ہوتے۔‘‘ اور یہ وہ توجیہات اوراحکام الٰہی ہیں کہ جن کی پرزور تاکید امت کے خیرخواہ اور امانت دار سرور کونین نے اپنی احادیث مبارکہ میں کی ہے۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’سنتے رہو اور مانتے رہو اگرچہ تم پر ایک ایسے حبشی غلام کو امیر بنا دیا جائے جس کا سر (چھوٹا ہونے میں ) گویا کشمش کی طرح ہو۔‘‘ (اخرجہ البخاری) اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تمہاری تنگی اور آسائش میں ، تمہاری خوشگواری اور گرانباری / ناپسندیدگی میں |