انجام کے اعتبار سے اچھی ہے۔‘‘ ابن عطیہ رحمہ اللہ نے ’’اولی الامر‘‘ سے مقصود کے بارے میں اپنی تالیف ’’المحرر الوجیز‘‘ میں فرمایاہے: جمہور کے قول کے مطابق امراء حضرت ابن عباس، ابوہریرہ، ابن زید اور ان جیسے اور (علماء) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔ جب اللہ تعالیٰ کے اس قول ’’اور تم میں سے امراء‘‘ سے مراد میں اختلاف ہوا کہ ان سے مراد حکمران ہیں یا علماء؟ تو قاضی ابوبکر بن العربی المالکی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’ میرے نزدیک صحیح ترین بات یہ ہے کہ اس آیت میں ﴿وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ﴾ سے حکمران اور علماء کرام دونوں مراد ہیں ۔ حکمران تو اس لیے کہ در اصل حکم اُن ہی کی طرف سے جاری ہوتا ہے؛ اور فیصلہ ان ہی کے ہاتھوں میں ہوتاہے اور علماء اس لیے کہ ان سے ہر مسئلے میں پوچھنا تمام لوگوں پر لازم ہے۔‘‘ فخر الرازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’جان لو کہ جب اللہ تعالیٰ نے حکمرانوں کو رعایا سے عدل و انصاف کرنے کا حکم فرمایا تو رعایا کو بھی ان کی اطاعت کا حکم فرمایا چنانچہ ارشاد ہے: ﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًاo﴾(النساء۵۹) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو بات مانو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور تم میں سے حکمرانوں کی، پس اگر تم کسی چیز میں اختلاف کرنے لگو تو اس بات کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو یہ بات بہتر اور انجام کے اعتبار سے اچھی ہے۔‘‘ اسی آیت کے پیش نظر حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: حاکم وقت پر فرض ہے کہ اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرے اور امانت ادا کرے پس |