۲۔ اسی طرح کھانا کھاتے وقت بھی ان کے احساسات کا خیال رکھنے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کر کے لائے تو اگر (کھانا کم ہونے کی صورت میں ) وہ اسے ساتھ بٹھا کر نہ کھلائے تب بھی اسے کچھ نہ کچھ یعنی دو چار لقمے ضرور دے کیونکہ اس خادم نے ہی کھانا بنانے کی تکلیف اٹھائی ہے۔‘‘ (متفق علیہ) [یعنی کھانا تیار کرنے کی محنت و مشقت برداشت کی ہے۔] ۳۔ اوران سے بدنی پہلو کے اعتبار سے حسن سلوک کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طاقت سے ان پر کام کا بوجھ لادنے اور ان سے محنت و مشقت کروانے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ حدیث میں مذکورہے کہ: ’’اور ان کو ایسے کام کا مکلف نہ کرو، جو ان کے لیے بہت بھاری ہو اور اگر انہیں ایسے کام کا مکلف کرو تو پھر اس کام میں خود ان کی مدد کرو۔‘‘ (متفق علیہ) ۴۔ اور انہیں مارنے [یا سزا دینے سے] ڈرایا ہے، جیسا کہ حضرت ابو مسعود الانصاری رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ میں اپنے ایک غلام کو مار رہا تھا، میں نے پیچھے سے آواز سنی (کوئی کہہ رہا تھا) کہ :’’اے ابو مسعود! تجھے معلوم رہنا چاہیے (اور اس بات سے غافل نہ ہونا چاہیے) کہ اللہ کو تجھ پر اس سے زیادہ قدرت اور قابو حاصل ہے جتنا تجھے اس بے چارے غلام پر ہے۔‘‘ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ فرمانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے اس کو آزاد کر دیا) اب یہ (میری طرف سے) اللہ کے لیے آزاد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر تم یہ نہ کرتے (یعنی اس غلام کو اللہ کے لیے آزاد نہ کرتے) تو جہنم کی آگ تمہیں جلا ڈالتی۔‘‘ (اخرجہ مسلم) |