Maktaba Wahhabi

90 - 158
کی حدیث سے ملتی ہے کہ جب ان کے والد بشیر الانصاری رضی اللہ عنہ نے اپنی باقی اولاد کو چھوڑ کر خصوصاً نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو کوئی چیز دینا چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل و مساوات کرو۔‘‘ (متفق علیہ) بعض سلف صالحین نے بوسہ لینے میں بھی عدل و مساوات کو واجب قرار دیا ہے کہ اس میں بھی اپنی اولاد کے درمیان برابری کی جائے اور احادیث مبارکہ میں اولاد کے اس حق میں کوتاہی کرنے کی صورت میں شدید وعیدیں وارد ہوئی ہیں ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’اے اللہ میں دو طرح کے ضعیفوں کے حق کو ضائع کرنے کو حرام سمجھتا ہوں ایک یتیم اور دوسری عورت۔‘‘ (اخرجہ النسائی) مطلب یہ ہے کہ جو عورت اور یتیم کا حق ضائع کرے میں اسے گناہ گار ٹھہراتا ہوں ۔ اسی طرح اسلام نے ان کی بہترین نگہداشت اور تربیت کی بھی ترغیب دی ہے اور ان کی بہترین اور اسلامی طریقے پر تربیت قیامت کے دن آگ سے ڈھال کا سبب ہو گی۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے کہ: ’’ جس بندے یا بندی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیٹیوں کی ذمہ داری ڈالی گئی (اور اس نے اس ذمہ داری کو ادا کیا) اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو یہ بیٹیاں اس کے لیے آگ سے بچاؤ کا سامان بن جائیں گی۔‘‘ (متفق علیہ) بلکہ اس سے بھی بشارت اس کے لیے جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم نشینی کا وعدہ ہے۔ چنانچہ مسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو بندہ لڑکیوں کا بار اٹھائے اور ان کی پرورش کرے یہاں تک کہ وہ سن بلوغ کو پہنچ جائیں تو وہ اور میں قیامت کے دن اس طرح ہوں گے۔‘‘ راوی حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو بالکل ملا کر دکھایا (یعنی یہ کہ جس طرح یہ انگلیاں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں اسی طرح میں اور وہ شخص بالکل ساتھ ہوں گے)۔
Flag Counter