صحابہ اور خصوصاً خلفائے راشدین کے آپس میں محبت و مردت پر بہت سی احادیث دال ہیں اور یہ امر عقل و منطق اشیاء کی طبیعت کے بالکل موافق اور مقتضی ہے ان حضرات ہی کے ہاتھ سے قرآن اور اسلام انسانوں تک پہنچا، یہی لوگ اس بات کے لائق ہیں کہ اسلام کی اقتدار کو مضبوطی سے پکڑیں خصوصی طور پر آپس کی محبت، مودت اور دوستی کو۔بیشک مؤمن آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ﴾ (التوبۃ: ۷۱) ’’مومن مرد اور عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔‘‘ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’مسلمان آپس کے تعلق اور محبت و رحمت میں ایک جسد کے مانند ہیں جب ایک عضو دکھتا ہے تو تمام بدن کو بخار اور نیند نہ آنے کی وجہ سے دکھ ملتا ہے۔‘‘ (متفق علیہ) اور یہ بات معروف ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا دور ہی وہ سنہری دور تھا کہ جس میں اسلام اور شریعت کے احکام اور اس کی تعلیمات اس کے بعد آنے والے کسی بھی دور کے مقابلے میں سب سے زیادہ منطبق اور معمول بہ تھے۔ لہٰذا اس کے بعد تاریخ کی بعض کتب میں جو ایسے واقعات وارد ہوئے ہیں جو ان احادیث صحیحہ سے جن میں سے بعض ہم نے مثال کے طور پر پیش کی ہیں کسی بھی طور سے موافقت نہیں رکھتے انہیں اہمیت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ کیونکہ تاریخ کی وہ خبریں اور واقعات، تحقیق، تدقیق، توثیق اور تعدیل کی اس چکی سے بالکل بھی نہیں گزرے جن سے احادیث نبویہ مطہرہ گزر چکی ہیں ۔ احادیث کی صحت کا جو معیار ہے وہ معیار تاریخی اخبار اور واقعات کا نہیں ہے، بلکہ ان تاریخی واقعات میں سے اکثر واقعات خواہشاتِ نفس اور عصبیت کی بنیاد پر بیان کیے گئے ہیں ۔ اور اگر تاریخی واقعات سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان جنگ جمل اور صفین جیسی جنگیں ثابت بھی ہیں تو زمانے سے طویل مسافت اور عدم علم نے ہمیں ان واقعات کی کیفیت |