کہ یہ دونوں گستاخ ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو سو سو کوڑے لگوائے اور ان کے کپڑے اتروا دئیے۔ (الکامل فی التاریخ: ۳/۱۴۴) حضرت شعبی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو (جنگ کے بعد) ایک وادی میں جام شہادت نوش پائے ہوئے دیکھا تو آپ اس جگہ اترے اور ان کے چہرے سے گرد و غبار صاف کرتے ہوئے فرمایا: ’’ابو محمد! مجھ پر یہ بہت گراں گزر رہا ہے کہ میں تمہیں مقتول دیکھا رہا ہوں ، بس میں اللہ ہی سے اپنے کھلے اور چھپے غموں کا شکوہ کرتا ہوں ۔‘‘ پھر آپ نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعائے مغفرت فرمائی اور فرمایا: ’’کاش میں اس واقعے سے بیس سال پہلے ہی مر جاتا۔‘‘ اور آپ یہ فرمایا کرتے تھے: ’’مجھے امید ہے کہ میں طلحہ اور زبیر ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ﴿وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَo﴾ (الحجر: ۴۷) ’’اور ان کے دلوں میں جو کدورت ہو گی ان کو ہم نکال دیں گے (گویا) بھائی بھائی تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں ۔‘‘ اور سنن کبریٰ بیہقی میں حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے غلام ابو حبیبہ سے منقول ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب جنگ جمل سے فارغ ہوئے تو میں عمران بن طلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عمران بن طلحہ رضی اللہ عنہ کا خوب خیر مقدم کیا اور انہیں اپنے قریب بٹھایا اور فرمایا: ’’میں امید کرتا ہوں کہ اللہ رب العزت مجھے اور تمہارے والد کو ان لوگوں میں سے بنا دے جن کے بارے میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: ﴿وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَo﴾ (الحجر: ۴۷) |