ہیں اور ان دونوں کے بعد تیسرے ایک اور تھے جن کا انہوں نے نام نہیں لیا۔ (اخرجہ احمد و الطرانی فی الاوسط) صحیحین میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کی شہادت کے بعد ان کے بستر پر لٹایا گیا تو لوگوں نے انہیں گھیر لیا اور ان کا جنازہ اٹھائے جانے سے پہلے ان کے لیے نماز پڑھنے لگے اور دعا کرنے لگے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ارشاد فرماتے ہیں کہ:’’ میں بھی انہی لوگوں کے درمیان تھا تو ایک شخص نے آ کر میرا کندھا پکڑا جس سے میں چونک گیا؛میں نے مڑکر دیکھا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دعائے مغفرت کی اور فرمایا: ’’ آپ نے اپنے بعد ایسا کوئی نہیں چھوڑا کہ میں اس کی طرح اعمال کر کے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کر لوں ۔اور اللہ کی قسم! مجھے اس بات کا یقین تھا کہ اللہ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں سے ملا دے گا کیونکہ میں اکثر و بیشتر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کرتا تھا کہ میں ابوبکر اور عمر گئے، میں ابوبکر اور عمر داخل ہوئے اور میں ابوبکر اور عمر آئے اور نکلے۔‘‘ جہاں تک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا تعلق ہے ؛تو حضرت علی رضی اللہ عنہ باوجود اس اختلاف کے جو ان کے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان شہادتِ عثمان کے بارے میں ہوا تھا؛ ان کی بہت عزت و احترام کیا کرتے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہونے کے سبب ان کے مرتبہ و مقام کا بہت لحاظ کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ بصرہ میں دو شخص آپ کے دروازے پر کھڑے ہوئے اور ان میں سے ایک نے کہا: ’’اے ہماری ماں ! آپ کو عقوق (نافرمانی) کی جزاء ہماری طرف سے مل جائے۔‘‘ اور دوسرے شخص نے کہا: ’’اماں جان! آپ اپنی غلطی سے رجوع کر لیجیے۔‘‘ اور جب یہ بات حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو انہوں نے قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کو وہاں بھیجا اور وہاں پر موجود تمام لوگوں کو لے آئے تو لوگوں نے ان دو آدمیوں کے بارے میں بتایا |