انہوں نے ایسا نہ کیا بلکہ یہ ارشاد فرمایا: ’’ تم عمر کو وہی مقام دو جو اس کو اللہ نے دیا ہے۔‘‘ اور بیت المال میں ان کا حصہ بنی عدی کی باری میں تھا جبکہ لوگ قریش کی کافی شاخوں سے پیچھے تھے۔ جہاں تک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اہل بیت سے تعلق کی بات ہے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مناقب میں ان کی روایت کردہ احادیث سب سے زیادہ صحیح اور قوی کے درجہ میں ہیں ، پھر حضرت علی، فاطمہ، حسن، حسین رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں مروی حدیث الکساء بھی انہیں کی روایت کردہ ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا کسی بھی مسئلہ کے بارے میں دریافت کرنے والوں اور فتویٰ طلب کرنے والوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف بھیج دیتی تھیں اور آپ چاہتی تھیں کہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہو جائیں ۔ چنانچہ حضرت بدل بن ورقاء الخزاعی نے آپ سے دریافت کیا کہ کس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے؟ تو آپ رضی اللہ عنہا نے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر بیعت کر لو۔‘‘ اسی طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے کہا: ’’میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا ہوں ۔‘‘ تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے ارشاد فرمایا: ’’ تو اللہ تعالیٰ کے یہاں مبغوض ہو! کیا تم ایسے شخص سے بغض رکھتے ہو جس کے دین کے لیے اتنے زیادہ احسانات ہیں کہ ان میں سے ایک احسان بھی دنیا اور ما فیہا سے ہزار درجہ بہتر ہے۔‘‘ اسی طرح اہل بیت بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت و احترام کے جذبات کا تبادلہ کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ ابوجحیفہ جن کو حضرت علی رضی اللہ عنہ ’’وہب الخیر‘‘ کہہ کر پکارتے تھے، وہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: اے ابوجحیفہ: کیا میں تمہیں نبی کے بعد اس امت کے افضل ترین شخص کے بارے میں نہ بتا دوں ؟ تو وہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا ضرور بتائیے! حالانکہ میرے خیال میں ان سے افضل شخص کوئی نہیں تھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: اس امت میں نبی کے بعد سب سے افضل ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ |