Maktaba Wahhabi

142 - 158
ڈالے تو گویا اس نے تمام آدمیوں کو قتل کر ڈالا۔‘‘ لہٰذا قتل کو جائز نہیں کیا سوائے قصاص کے طور پر یا باغیوں کے بگاڑ اور زمین میں ان کے فساد پھیلانے کی وجہ سے مثلاً مسلمان کو اس کے دین سے بھٹکانا اور راہزنی کرنا وغیرہ۔‘‘ (انتہی من قاعدۃ مختظرۃ لابن تیمیۃ، ص: ۲۰۳، ۲۰۴) ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے کفار میں سے جنگ نہ کرنے والوں کو قتل کرنے کی ممانعت کی علت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : ’’ شاید اس حکم کی حکمت یہ ہے کہ اصولی اور بنیادی بات جان کو (قتل کرنے کے ذریعے) ضائع نہ کرنا ہے اور (قتل کرنے کی) صرف اس حد تک اجازت ہے جس سے فساد اور شر کا ازالہ ہو سکے اور (کفار میں سے) جو نہ جنگ کرے اور نہ ہی جنگ کا اہل ہو تو وہ نقصان پہنچانے میں ان (کفار) جنگجوؤں کی طرح نہ ہو گا (جن کو قتل کرنا جائز ہے) لہٰذا اس کا حکم اصل کی طرف لوٹ آئے گا اور وہ اس کو قتل کرنے کی ممانعت ہے۔ (انتہی من احکام الاحکام) اور نصوص قرآنیہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ انسان کے دوسرے کے ساتھ تعلق میں انتہائی اور حد درجہ بدترین ناپسندیدہ شر انگیز اور شدید ترین چیز اس کا خون ریزی کرنا، زمین میں فساد پھیلانا اور اس میں جبر و خود سری چاہنا ہے اور قرآن میں ایک سو بیس سے بھی زیادہ جگہ اس بات کو بار بار دہرا کر اس کی تاکید کی ہے۔ قرآن کریم میں نصوص اس بات پر دلالت کرتے ہوئے وارد ہوئے ہیں کہ خون بہانا جب قصاص، حدود اور جہاد میں مشروع ہوا تو ان تین شرور کی مزاحمت اور ان کے دفعیہ و ازالہ کے لیے مشروع ہوا۔ جیسا کہ یہ واضح حکم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں موجود ہے: ﴿وَ لَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰاُولِی الْاَلْبَابِ﴾ (البقرۃ: ۱۷۹) ’’اور تمہارے لیے قصاص (کے حکم) میں زندگی (کا راز مضمر) ہے اے عقلمندو!‘‘
Flag Counter