’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! لوگوں پر ضرور بضرور ایسا زمانہ آئے گا کہ قتل کرنے والے کو یہ معلوم نہ ہو گا کہ وہ کس بنا پر قتل کر رہا ہے اور قتل ہونے والے کو یہ معلوم نہ ہو گا کہ وہ کس بنا پر قتل کیا جا رہا ہے۔ تو پوچھا گیا کہ یہ سب کس طرح ہو گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’[بے جا]قتل و غارت گری (کے سبب یہ ہو گا)۔‘‘ (اخرجہ مسلم) اور آدمی کو قتل کرنا کفر کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔ کیونکہ اس کا قتل کسی راجح مصلحت کے بغیر جائز نہیں ہے اور وہ مصلحت یہ ہے کہ اس کے قتل کرنے سے ایسے شر کا ازالہ مقصود ہو جو اس کو قتل کرنے سے بھی بڑا ہو۔ پس اگر یہ مصلحت نہ ہو تو اس کا قتل کرنا کسی صورت بھی جائز نہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا﴾(المائدۃ: ۳۲) ’’اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جو شخص کسی شخص کو بلا معاوضہ دوسرے شخص کے یا بدون کسی فساد کے جو زمین میں اس سے پھیلا ہو قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام آدمیوں کو قتل کر ڈالا ۔‘‘ اس آیت کریمہ سے علماء کرام نے ایک قاعدہ اخذ کیا ہے کہ بنیادی چیز کسی جان کو ضائع نہ کرنا ہے۔ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایاہے: ’’ بنیادی اور اصولی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پاک نے کسی جان کو قتل کرنا حرام کیا ہے سوائے اس کے حق کے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا﴾ (المائدۃ: ۳۲) ’’اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جو شخص کسی شخص کو بلا معاوضہ دوسرے شخص کے یا بدون کسی فساد کے جو زمین میں اس سے پھیلا ہو قتل کر |