لوگ اس کی عبادت اس لیے کرتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کریں اور یہ لوگ ہماری اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارش کریں گے، ان سے صرف خوشی کی حالت میں دعا مانگتے تھے، مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ ہی سے دعا مانگتے تھے اورمخلوقات میں سے کسی کو اس میں شریک نہیں کرتے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاِذَا رَکِبُوْافِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ فَلَمَّا نَجّٰہُمْ اِلَی الْبَرِّ اِذَا ہُمْ یُشْرِکُوْنَo﴾ (العنکبوت: ۶۵) ’’پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو خدا کو پکارتے ہیں اور خالص اسی کی عبادت کرتے ہیں لیکن جب وہ نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو جھٹ شرک کرنے لگ جاتے ہیں ۔‘‘ دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿حَتّٰی ِذَا کُنْتُمْ فِی الْفُلْکِ وَ جَرَیْنَ بِہِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَۃٍ وَّ فَرِحُوْا بِہَا جَآئَ تْہَا رِیْحٌ عَاصِفٌ وَّ جَآئَ ہُمُ الْمَوْجُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّ ظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ اُحِیْطَ بِہِمْ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ﴾ (یونس: ۲۲) ’’حتی کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو اورکشتیاں پاکیزہ ہوا (کے نرم نرم جھونکوں ) سے سواروں کو لے کر چلنے لگتی ہیں اور وہ ان سے خوش ہوتے ہیں تو ناگہاں زناٹے کی ہوا چلتی ہے اور لہریں ہر طرف سے ان پر آنے لگتی ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ اب تو لہروں میں گھر گئے تو اس وقت خالص اللہ کی عبادت کرتے ہیں ۔‘‘ اب تو اور افسوس ہوتا ہے کہ آج کل یہ جاہل، ناسمجھ مسلمان قبروں اور نیکو کار بندوں سے خوشی اور غمی دونوں حالتوں میں دعا مانگتے ہیں ۔ اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں تومشرکین اقرار کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا ہے نفع و نقصان کا مالک ہے تمام امور کا چلانے والا ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: |