بندے ، نفع و نقصان پہنچانے پر قادر ہیں ۔ بلکہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ لوگ ہمارے اوراللہ تعالیٰ کے درمیان وسیلہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں صراحت کے ساتھ اس عذر کو ردّ کر دیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَآئَ مَا نَعْبُدُہُمْ اِِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا اِِلَی اللّٰہِ زُلْفَی﴾ (الزمر: ۳) ’’اور جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ہیں (وہ کہتے ہیں کہ) ہم ان کو اس لیے پوجتے ہیں کہ ہم کو خدا کا مقرب بنا دیں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بتایا ہے کہ جن سے یہ لوگ دعا مانگتے ہیں وہ لوگ خود اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے تھے اور اس کی رحمت کے امیدوار تھے، اس کے عذاب سے ڈرتے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ فَلَا یَمْلِکُوْنَ کَشْفَ الضُّرِّ عَنْکُمْ وَ لَا تَحْوِیْلًاo اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًاo﴾ (الاسراء: ۵۶-۵۷) ’’فرمادیجیے: جن کی نسبت تمہیں (معبود ہونے کا) گمان ہے ان کوپکار کر دیکھو۔ وہ تم سے تکلیف کو دور کرنے یا اس کے بدل دینے کا کچھ اختیار نہیں رکھتے۔یہ لوگ جن کو پکارتے ہیں وہ خود اپنے رب کے ہاں ذریعہ قربت تلاش کرتے رہتے ہیں کہ کون ان میں (اللہ کا) زیادہ مقرب ہے اور اس کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں بے شک تمہارے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں نصاریٰ اور مشرکین عرب، حضرت مسیح و مریم علیہما السلام فرشتوں اور بتوں کے وسیلے سے دعا مانگتے تھے اور یہ گمان رکھتے تھے ہم |