چاہے تو کیا وہ اس تکلیف کو دور کر سکتے ہیں ؟ یا اگر مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو وہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں ؟ کہہ دو کہ مجھے خدا ہی کافی ہے۔ بھروسہ رکھنے والے اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔‘‘ حدیث شریف میں ارشاد ہے: ’’دعا مانگنا عبادت ہے۔‘‘[ابو داؤد ؛ نسائی/ صحیح] دوسری روایت میں ہے کہ ’’دعا عبادت کا مغز ہے۔‘‘[ترمذي /غریب] دعا کا توحید و شرک سے اس طرح تعلق ظاہر ہوتا ہے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتا ہے نفع حاصل کرنے یا ضرر دور ہونے کی تو اسے پتا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی سن رہا ہے اس کے حالات کو جانتا ہے اس کی دعا کو قبول کرنے کی قدرت رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسی وقت کسی اور کی دعا بھی سن رہا ہوتا ہے اس کے حالات کو بھی جانتا ہے مانگنے والے کتنے ہی کیوں نہ ہوں ، ان کی زبانیں مختلف ہوں ، حاجتیں الگ الگ ہوں اللہ تعالیٰ کو سب معلوم ہوتا ہے۔ جب انسان یہ دعا اللہ کے غیر سے مانگتا ہے جیسے نصاریٰ مسیح اور مریم علیہما السلام سے مانگتے ہیں ۔ اسی طرح بعض جاہل (ناسمجھ) مسلمان مردوں سے نفع پانے اور نقصان دور ہونے کی دعا مانگتے ہیں ؛ تو وہ ایک قسم کی عبادت غیر اللہ کے لیے بجا لاتے ہیں ۔کیونکہ یہ لوگ اس اعتقاد کے ساتھ دعا مانگتے ہیں کہ جس سے دعا مانگی جا رہی ہے وہ ان کی دعا سن رہا ہے ان کے دل میں جو کچھ ہے اس کے بارے میں اسے معلوم ہے اور اسی طرح یہ اور لوگوں کی دعا بھی سن رہا ہوتا ہے ان کے حالات دل کے بارے میں اس کو معلوم ہوتا ہے چاہے مانگنے والے کتنے ہی کیوں نہ ہوں ، ان کی زبانیں مختلف ہوں ، حاجتیں الگ الگ ہوں ، دور دور رہتے ہوں ۔ یہ نصاریٰ اورناسمجھ مسلمان اسی اعتقاد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی خصوصیات کو مخلوق کی طرف پھیر دیتے ہیں ، خالق کی عبادت کی ایک قسم (دعا) کو مخلوق کے لیے بجا لاتے ہیں ۔ اورظاہر ہے کہ یہ سب امور اللہ تعالیٰ کی توحید کے منافی ہیں ۔ نصاری اور ان ناسمجھ مسلمانوں کو ان کا یہ عذر کچھ کام نہ دے گا کہ یہ لوگ یہ اعتقاد نہیں رکھتے کہ مسیح اور مریم علیہما السلام یا نیکوکار |