کرنے والے)، ان کے سامنے اسلامی تعلیمات اور قرآن پیش کیا جائے گا اگر وہ چاہیں تو اسلام میں داخل ہو جائیں اور اگر وہ چاہیں تو اپنے ملکوں میں واپس چلے جائیں ۔‘‘ ۴۔ اور کسی جگہ کی زیارت یا تفریحی مقامات کی سیر کی غرض سے آنے والے (بھی مستجیرین میں شامل ہیں ) ان سب کا حکم یہ ہے کہ نہ ان سے جنگ کی جائے گی، نہ انہیں قتل کیا جائے گا اور نہ ہی ان سے جزیہ و خراج وغیرہ وصول کیا جائے گا۔ اور ان میں سے مستجیرین (پناہ اور حفاظت مانگنے والوں ) کے سامنے اسلامی تعلیمات اور قرآنی نظریہ و توحید پیش کی جائیں گی، پس اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو ٹھیک؛ ورنہ اگر وہ واپس اپنے ملک جانا چاہیں تو چلے جائیں گے۔ اور ان سے ان کے ملک پہنچنے سے پہلے مقابلہ نہیں کیا جائے گا۔ لہٰذا جب وہ اپنے ملک یعنی دار الحرب پہنچ جائیں گے تو پہلے کی طرح حربی بن جائیں گے (اور ان سے جنگ کرنا جائز ہو گا)۔ اور علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ( صحیح مسلم کی مخطوط شرح میں منقول ہے؛) جب پوچھا گیا کہ: اہل کتاب میں سے یہود و نصاریٰ کے مزدوروں اور عاملین کو خادم بنایا جا سکتا ہے؟ ’’ تو انہوں نے فرمایا: جی ہاں ! یہ جائز ہے، مگر یہ جائز نہیں ہے کہ وہ لوگ یہاں رہ کر یہیں کی شہریت اختیار کر لیں ، یہ بات جزیرہ عرب میں ممنوع ہے۔ لیکن اگر وہ لوگ تجارت یا کسی اور کام وغیرہ میں شریک بن کر مستقل شہریت اختیار کیے بغیر یہاں آئیں تو پھر کوئی حرج نہیں ۔‘‘ اس بات کی شہادت میں ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ کا اپنی صحیح میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا اللہ کے اس ارشاد میں روایت کردہ قول ہے: ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا﴾ (التوبۃ: ۲۸) ’’اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو بے شک مشرکین نجس و ناپاک ہیں لہٰذا وہ |