Maktaba Wahhabi

104 - 158
قدامہ آگے فرماتے ہیں گویا ان احادیث میں جزیرۂ عرب سے مراد حجاز کا علاقہ ہے۔ بیہقی نے ’’معرفۃ السنن و الآثار‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’حجاز سے مراد مکہ، مدینہ، یمامہ اور اس کے گرد و پیش کے تمام صوبے ہیں کیونکہ (کفار اور یہود و نصاریٰ) کا حجاز کی رہائش کو چھوڑنا منسوخ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر (کے یہودیوں ) سے حسن معاملہ کرتے ہوئے انہیں جلا وطنی سے مستثنیٰ کر دیا تھااور یہ ارشاد فرمایا تھا: ’’میں تمہیں یہاں جب تک ٹھہراؤں گا جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں ٹھہرائیں ۔‘‘ (اخرجہ مالک فی الموطا) پھر ہمیں انہیں حجاز کی سرزمین میں سے جلاوطن کرنے کا حکم دیا گیا … پھر تفصیلی طور پر اس بات کو یہاں تک بیان کیا کہ … آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارض حجاز سے ان (یہود و نصاریٰ) کو جلا وطن کرنے کے حکم کو اس بات پر بھی محمول کیا جا سکتا ہے کہ اب یہ لوگ یہاں رہائشی طور پر نہیں رہیں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ اب دو دین باقی نہیں رہیں گے صحیح طرق سے ثابت ہو جاتا ہے تو پھر آپ کے حکم کو اس بات پر بھی محمول کیا جا سکتا ہے کہ مستقل اور دائمی طور پر دو دین باقی نہیں رہیں گے۔ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یمنیوں سے زیادہ بہتر اور صاف، شفاف ذمی میرے علم میں نہیں ہیں ، اس وقت وہ ذمی تھے اور یمن حجاز میں نہیں تھا۔ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کفار کی قسمیں ذکر کرنے کے بعد اہل ذمہ کے احکام کے بارے میں فرماتے ہیں :’’ کفار یا تو اہل حرب ہوتے ہیں پایا پھر اہل عہد ہوتے ہیں ۔ اور پھر اہل عہد کی بھی تین قسمیں ہوتی ہیں : اہل ذمہ، اہل ہدنہ اور اہل امان (یعنی جن سے جنگ کے بعد صلح کر لی جائے) پھر اہل امان کے بارے میں فرمایا: مستامن (امن طلب کرنے والا) وہ ہوتا ہے جو بلاد مسلمین میں رہائش اختیار نہ کرنے کی غرض سے آیا ہو۔ یہ بھی چار قسم کے ہوتے ہیں : (۱) (ملکوں کے) سفیر (۲) تاجر (۳) مستجیرین (یعنی پناہ اور حفاظت طلب
Flag Counter