Maktaba Wahhabi

103 - 158
۲۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے؛ وہ فرماتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ’’ میں ضرور بضرور یہود و نصاریٰ کو جزیرہ عرب سے نکال دوں گا حتیٰ کہ اس میں مسلمانوں کے علاوہ کسی کو نہ چھوڑوں گا۔‘‘ ۳۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے ؛ آپ فرماتی ہیں : ’’وہ آخری وصیت جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی وہ یہ تھی: ’’ جزیرہ عرب میں دو دین نہیں رہنے دئیے جائیں گے۔‘‘ جبکہ یہ جزیرہ ابتدائے اسلام سے دین اسلام کا حرم، اس کا پہلا گھر اور مسلمانوں کا قبلہ رہاہے، یہیں سے عقیدۂ توحید کا نور پھوٹا (اور واپس سمٹ کر پوری دنیا سے) اسی کی طرف چلا جائے گا۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’ اسلام کی ابتدا اجنبیت کی حالت میں ہوئی تھی اور یہ واپس (اپنے ابتدائی دور کی طرح) اجنبی ہو جائے گا اور دو مسجدوں کے درمیان سمٹ جائے گا جیسا کہ سانپ اپنے بل میں سمٹ کر واپس آ جاتا ہے۔‘‘ (اخرجہ مسلم) تو یہ امر ضروری تھا کہ دین اسلام کے علاوہ کسی بھی قسم کے دوسرے مذہب کا اس میں دائمی وجود نہ رہے چاہے وہ وجود کسی شخص کی صورت میں ہو یا کسی فرم (کارخانے) یا کسی ادارے کی صورت میں ۔‘‘ جیسا کہ (اس سے متعلق) تمام نصوص کے درمیان تطبیق کی جائے تو اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ احادیث شریفہ میں جزیرہ عرب سے مراد وہ علاقہ ہے جو حالیہ دور میں مملکت سعودی عرب کی اندرونی حدود میں واقع ہے۔ ابن قدامہ کا ’’مغنی‘‘ میں یہ قول ہے کہ کفار کی رہائش سے ممنوعہ علاقہ مدینہ اور اس کے اردگرد کا ہے اور مدینہ کے اردگرد کے علاقے میں مکہ، یمامہ، خیبر، ینبع، فدک، اس کے صوبے اور اس کے اردگردکے علاقے شامل ہیں اور یہی قول امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی ہے۔ کیونکہ نہ یہ تیماء سے جلا وطن کیا گیا تھا اور نہ یمن سے۔ پھر ابن
Flag Counter