Maktaba Wahhabi

87 - 363
روایت کے سبب پہچانے جاتے ہیں یا جن کا عرب قبائل سے تعلق ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ان کے قیام کی مقدار نامعلوم ہے، پس تعمیم کا قول ہی کہ جس کی جمہور نے صراحت کی ہے، معتبر ہے، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم‘‘۔ [1] آگے چل کر علامہ سخاوی رحمہ اللہ مازری کے قول پر نہایت فیصلہ کن انداز میں مزید لکھتے ہیں: ’’وبالجملة فما قاله المازري منتقد بل كل ما عدا المذهب الأول القائل بالتعميم باطل، والأول هو الصحيح بل الصواب والمعتبر و عليه الجمهور‘‘ [2] پس علامہ مازری کی اتباع میں جناب اصلاحی صاحب کا قول بھی ’’غریب‘‘ اور جمہور کے موقف و مذہب کے خلاف قرار پایا۔ اگر بفرض محال بقول جناب اصلاحی صاحب ’’الصحابة كلهم عدول‘‘ کا اصول فقط انہی جلیل القدر اصحاب رسول کے لئے درست مانا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ باقی تمام اصحاب رسول غیر عدول ہوئے، لہٰذا ان کے واسطے سے منقول و مروی روایات کے ذخیرہ کو مشتبہ اور پایہ اعتبار سے ساقط قرار دے دیا جائے۔ پھر اگر دین کے اس عظیم ذخیرہ سے کوئی شخص پوری طرح دست بردار نہ ہونا چاہیے تو بھی اس کے ردوقبول کے لئے ہمیں اصحاب رسول پر جرح و تعدیل کا دروازہ کھولنا پڑے گا جو تمام اہل حق کے نزدیک متفقہ طور پر قطعاً مغلق و مسدود ہے۔ اگر ایک بار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جرح و تعدیل کا دروازہ کھول دیا گیا تو پھر یہ صرف طعن بر عدالت و صداقت صحابہ پر ہی منتہی نہ ہو گا بلکہ اس سے بڑے بڑے فتنے معرض وجود میں جائیں گے – اس مطالبہ کو تسلیم کرنے میں ایک قباحت یہ بھی ہے کہ اس سے در پردہ سبائیت کی یک گونہ تائید ہوتی ہے کیونکہ اہل سنت اور اہل شیعیت کے مابین جوہری نقطہ اختلاف ہی یہی ہے، چنانچہ محاسبی احمد حسین یعقوب لکھتے ہیں: ’’نقطة الخلاف الجوهرية: أهل السنة يقولون بعدالة كل صحابة المعنيين كذا اللغوي والاصطلاحي و أهل الشيعة يقولون بعدالة المتصف من الصحابة فقط‘‘ (نظرية عدالة الصحابة والمرجعية السياسية في الإسلام للمحاسي: ص 60) پس معلوم ہوا کہ صحابئ رسول ہونے کے لئے ان تمام شرائط میں سے کسی بھی شرط کا، کہ جن کا جناب اصلاحی صاحب نے ذکر فرمایا ہے، کسی فرد میں لازماً پایا جانا ضروری نہیں ہے۔ پس ’’الصحابة كلهم عدول‘‘ کا ضابطہ ہر صحابی رسول پر علی الاطلاق لاگو ہو گا خواہ وہ طبقات صحابہ میں سب سے ادنیٰ اور فروتر طبقہ سے ہی تعلق کیوں نہ
Flag Counter