Maktaba Wahhabi

81 - 363
صاحب کو اپنے کسی مخصوص شاذ نظریہ کی حمایت و تائید مطلوب ہوتی ہے تو ’’الکفایۃ‘‘ کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں اور ان کو وہ چیز جو دوسری کتب مصطلحات میں شاید بہ آسانی نہ مل سکتی ہو اس میں مل جاتی ہے۔ اسی لیے ’’الکفایۃ‘‘ آں محترم کا اکلوتا اور محبوب ترین ماخذ ہے [1] باوجود اس کے جب صاحب ’’الکفایۃ‘‘ کی کوئی رائے محترم اصلاحی صاحب کو اپنی مرضی و منشا کے خلاف نظر آتی ہے تو اس سے یوں لاعلم اور دست کش ہو جاتے ہیں گویا کہ اس کا سرے سے ’’الکفایۃ‘‘ میں وجود ہی نہیں ہے۔ یہاں مذکورہ سبب بغاوت بھی یہی کچھ معلوم ہوتا ہے، واللہ أعلم۔ آگے چل کر جناب اصلاحی صاحب ایک اور ذیلی سرخی کے تحت فرماتے ہیں: صحابیت از روئے قرآن: قرآن مجید میں صحابہ کی تعریف میں جو آیتیں وارد ہیں اور جن کا محدثین صحابہ کی تعدیل کے سلسلہ میں حوالہ دیتے ہیں ان سے بھی یہی حقیقت واضح ہوتی ہے کہ قرآن کے پیش نظر وہی لوگ ہیں جنہوں نے دین کے اختیار کرنے میں پیش قدمی کی ہے، عسر اور یسر میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں۔ اللہ کی راہ میں خرچ اپنا مال کیا ہے، غزوات میں سرفروشیاں کی ہیں۔ وہ لوگ پیش نظر نہیں ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کبھار دیکھ لیا ہے۔ اعراب کے منافقین کی تو قرآن نے اصل خرابی ہی یہی بتائی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نہیں اٹھائی، اگرچہ انہوں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا بھی اور اسلام کے بھی بڑی بلند آہنگی سے مدعی تھے۔ اس باب میں قرآن مجید کی آیات کا استقصاء کیجئے اور ان پر ایک نظر اس پہلو سے ڈالئے کہ ان میں صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے شرف کے پہلو کو کوئی اہمیت دی گئی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت و رفاقت، نصرت و حمایت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ و تلقی کو اصل اہمیت حاصل ہے۔
Flag Counter