یعنی ’’بےشک اللہ عزوجل طلب حدیث کی خاطر محدثین کے اسفار سے اس امت پر سے بلاؤں کو دور کر دیتا ہے‘‘۔
ابو قلابہ کا قول ہے:
’’لقد أقمت بالمدينة ثلاثة أيام ما لي حاجة إلا رجل عنده حديث يقدم فأسمعه منه‘‘ [1]
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا مشہور قول ہے:
’’لو أعلم أحدا أعلم بكتاب اللّٰه تعاليٰ مني لرحلت إليه‘‘ [2]
فضل بن غانم رحمہ اللہ سے بعض احادیث کے متعلق منقول ہے کہ فرمایا:
’’واللّٰه لو رحلتم في طلبه إلي البحرين لكان قليلا‘‘ [3]
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اسناد عالی کی طلب صحیح سنت ہے‘‘۔ پھر حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث نقل فرماتے ہیں کہ جس میں ایک اعرابی ضمام بن ثعلبہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہ حکم نبوی سننے کا ذکر مروی ہے (يا محمد! أتانا رسولك فزعم كذا)، پھر فرماتے ہیں کہ: ’’اگر علوم اسناد کی طلب غیر مستحب ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضمام کی آمد پر ضرور نکارت فرماتے‘‘۔ [4]
لیکن حافظ علائی اور ابن حجر عسقلانی رحمہما اللہ کا قول ہے کہ: ’’جو چیز انہوں نے ذکر کی ہے اس سے استدلال محل نظر ہے‘‘۔ [5]
|