و مماثلت بھی ہے، لہٰذا جس طرح گواہ کے لئے عادل اور قابل اعتماد ہونا ضروری ہے اسی طرح راوی کا بنیادی وصف بھی سیرت کی پاکیزگی، حافظہ اور عدالت ہے۔
3- [قُلْ أَرَأَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ ۖ ائْتُونِي بِكِتَابٍ مِّن قَبْلِ هَـٰذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِّنْ عِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ] [1]
یعنی ’’کہو کہ بھلا تم نے ان چیزوں کو دیکھا ہے جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔ مجھے بھی دکھاؤ کہ انہوں نے کون سی زمین پیدا کی ہے یا آسمان میں ان کی شرکت ہے۔ اگر سچے ہو تو اس سے پہلے کی کوئی کتاب میرے پاس لاؤ یا علم (انبیاء) میں سے کچھ منقول چلا آ رہا ہو تو اسے پیش کرو۔‘‘
اس آیت میں ’’أثارة‘‘ کی اصل ’’أثر‘‘ ہے۔ اس کے تین مستعمل مصادر ’’أثرة‘‘، ’’أثارة‘‘ اور ’’أثر‘‘ ہیں۔ مشہور کتب لغت میں ہے: ’’الأثرة المكرمة لمتوارثه كالمأثرة والبقية من العلم تؤثر كالأثرة والأثارة‘‘[2]یعنی ’’اثرۃ‘‘ اس وصف کو کہتے ہیں جو آباء و اجداد کی جانب سے اولاد کی طرف منتقل ہوتا چلا آتا ہو۔ اسی طرح اس بقیہ علم کو بھی کہتے ہیں جو منقول ہوتا چلا آتا ہو جیسا کہ ’’اثرۃ‘‘ اور ’’اثارۃ‘‘ کا مفہوم ہے‘‘۔
لفظ ’’أثارة‘‘ کی تفسیر میں علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’أصل الكلمة من الأثر وهي الرواية، يقال: أثرت الحديث و آثرة أثرة و أثارة و أثرا، إذا ذكرته عن غيرك، وقال عطاء: أو شئ تأثرونه عن نبي كان قبل محمد صلي اللّٰه عليه وسلم، قال مقاتل: أو رواية من علم عن الأنبياء‘‘ [3]
یعنی ’’یہ لفظ اثر کے مادے سے ہے جب کسی دوسرے سے بات نقل کی جائے اسی موقع پر کلمہ ’’آثرت الحديث‘‘ آثرۃ، اثرۃ، اثارۃً اور اثر بولا جاتا ہے۔ تابعی عطاء کہتے ہیں: یا کوئی ایسی چیز پیش کرو جس کو تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی نبی سے روایت کرتے ہو۔ مقاتل مفسر کہتے ہیں: یا علم الانبیاء میں سے کوئی روایت پیش کرو‘‘۔ پس معلوم ہوا کہ اس لفظ ’’أثارۃ‘‘ میں نقل اور روایت کا مفہوم داخل ہے اور چونکہ کسی قدیم علم یا چیز کی روایت راویوں کے سلسلہ کے بغیر برقرار نہیں رہ سکتی، لہٰذا اس کے لئے سند کا اہتمام لازمی ہے۔ اس کے بغیر مروی و منقول کلام کی صحت و ضعف کا علم بعید از دسترس ہے۔ مطر الوراق رحمہ اللہ بھی سورۃ الاحقاف کی زیر مطالعہ آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ: ’’اس سے مراد اسناد حدیث ہے‘‘۔ [4]
|