ہوتا تو ہم چشموں میں اس کی کوئی عزت نہ ہوتی۔
یہ تمام تکلفات ان کی زندگی اور معاشرت کا جز بن گئے تھے اور ان کے دلوں میں اس کی وجہ سے ایک ایسا لاعلاج مرض پیدا ہوگیا تھا جو ان کی پوری شہری زندگی اور ان کے پورے نظامِ تمدن میں سرایت کرگیا تھا یہ ایک مصیبت عظمٰی تھی جس سے عام و خاص اور امیر و غریب میں سے کو ئی محفوظ نہیں رہا تھا ہر شہری پر یہ پر تکلف اور امیرانہ زندگی ایسی مسلط ہوگئی تھی جس نے اس کو زندگی سے عاجز کر دیا تھا اور اس کے سر پر غم و افکار کا ایک پہاڑ ہر وقت رکھا رہتا تھا۔
بات یہ تھی کہ یہ تکلفات بیش قرار رقمیں صرف کیے بغیر حاصل نہیں ہوسکتے تھے اور یہ رقمیں اور بے پایاں دولت، کاشتکاروں ، تاجروں اور دوسرے پیشہ وروں پر محصول اور ٹیکس بڑھانے اور ان پر تنگی کیے بغیر دستیاب نہیں ہوسکتی تھیں ۔ اگر وہ غریب ان مطالبات کے ادا کرنے سے انکار کرتے تو ان کو سزائیں دی جاتیں اور اگر وہ تعمیل کرتے تو ان کو گدھے اور بیلوں کی طرح بنا لیتے، جن سے آب پاشی اورکاشت کاری میں کام لیا جاتا اور صرف خدمت کرنے کے لیے پالا جاتا اور محنت و مشقت سے ان کو کسی وقت چھٹی نہ ملتی اور پرمشقت اور حیوانی زندگی کا نتیجہ یہ ہوا کہ کسی وقت سر اٹھانے اور سعادتِ اخروی کا خیال بھی کرنے کا موقع اور مہلت نہیں ملتی تھی۔ بسا اوقات پورے ملک میں ایک فرد بشر بھی ایسا نہ ملتا تھا جس کو اپنے دین کی فکر و اہمیت ہوتی۔‘‘[1]
|