ہوتا ہے، کیونکہ یہ سب عبادات ہیں اور عبادات کا مقصد اللہ سے رابطہ و تعلق استوار کرنا اور اسے راضی کرنا ہوتاہے۔ اسی لیے عبادات توقیفی ہوتی ہیں ، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہوتی ہیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بیان کردہ ہوتی ہیں ۔ ان میں کسی کو اپنی طرف سے کمی بیشی کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس اعتبار سے زکاۃ بھی ایک عبادت ہے جو اللہ کے حکم سے مقرر ہوئی ہے، البتہ اس کا نصاب وشرح اور دیگر تفصیلات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں ، اس لیے اس کا نصاب بھی ہمیشہ وہی رہے گا جو احادیث میں بیان ہوا ہے اوراس کی ادائیگی کی شرح بھی وہی رہے گی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائی ہے۔ حالات وظروف کے حوالے سے یا زمان و مکان کے تغیر کی بنیاد پر نصاب میں تبدیلی کی گنجائش ہے نہ شرحِ زکاۃ میں ردو بدل کا جواز۔
ٹیکس، زکاۃ سے مختلف اور اس کے علاوہ ہے۔ زکاۃ ایک الگ چیز ہے، وہ اللہ کا حکم اور اس کی عبادت ہے اور اس کے مصارف بھی متعین ہیں ۔ جبکہ ٹیکس آج کل کی حکومتوں کی ایجاد ہے اور وہ اپنے حالات کے مطابق اس میں کمی بیشی کرتی رہتی ہیں ۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ زکاۃ متعین مصارف ہی پر خرچ ہوسکتی ہے، اس کا دیگر مدَّات پر خرچ کرنا جائز نہیں ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ زکاۃ لینے کی مجاز وہی حکومت ہے جو اسلامی ہو، یعنی وہ اپنی حدود میں اسلام کو نافذکرنے والی ہو، وہاں اسلامی حدود و تعزیرات نافذ ہوں ، اس کانظامِ تعلیم اسلامی ہو، نظام صلاۃ نافذ ہو، اس کے تحت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام ہو اور اس کا نظام معاشیات سود سے پاک ہو، وغیرہ۔
|