لِیَسْتَکْثِرْ))
’’جو اپنے مال میں اضافے کے لیے لوگوں سے ان کے اموال کا سوال کرے، تو وہ آگ کے انگارے کا سوال کرتا ہے، اب اس کی مرضی ہے کہ کم کرے یا زیادہ۔‘‘[1]
اس مناسبت سے میں ان لوگوں کو تنبیہ کرتا ہوں جو لوگوں سے چمٹ کر سوال کرتے ہیں ، حالانکہ وہ دولت مند ہوتے ہیں بلکہ میں ہر اس شخص کو تنبیہ کرتا ہوں ، جو مستحق زکاۃ نہ ہو مگر زکاۃ قبول کرلے اور میں اس سے کہتا ہوں کہ تونے زکاۃ لے لی، حالانکہ تو اس کا مستحق نہ تھا، لہٰذا تو حرام کھاتا ہے۔ والعیاذ باللہ۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اللہ سے ڈرے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((وَمَنْ یَسْتَعْفِفْ یُعِفَّہُ اللّٰہُ وَمَنْ یَسْتَغْنِ یُغْنِہِ))
’’جو شخص عفت اختیار کرے اللہ اسے عفت عطا فرمادے گا اور جو شخص بے نیازی اختیار کرے، اللہ اسے بے نیاز کردے گا۔‘‘[2]
لیکن جب کوئی شخص آپ کی طرف ہاتھ پھیلائے اور آپ کا ظن غالب یہ ہو کہ یہ مستحق ہے اور آپ اسے زکاۃ دے دیں تو آپ کی زکاۃ ادا ہوجائے گی اور آپ بریٔ الذمہ ہوجائیں گے اور اگر بعد میں معلوم ہو کہ یہ زکاۃ کا مستحق نہیں تھا، تو زکاۃ دوبارہ ادا نہیں کیجائے گی۔ اس کی دلیل اس شخص کا قصہ ہے جس نے مال صدقہ کرنا چاہا تو پہلے ایک زانی عورت کو دے دیا۔ صبح ہوئی تو لوگ باتیں کرنے لگے کہ آج رات ایک
|