حکومت کو بھی حتی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس میں تبدیلی کا مجاز تسلیم نہیں کیا گیا حالانکہ یہ ٹیکس ہوتا تو اس کے مصارف متعین نہ ہوتے۔ ہر حکومت کو حق حاصل ہو تاکہ وہ اپنی صواب دید اور ضروریات کے مطابق جس طرح چاہے خرچ کرے جس طرح عموماً ٹیکسوں میں ہوتا ہے۔
٭ علاوہ ازیں زکاۃ کے لیے جو شرعی الفاظ مستعمل ہیں وہ بجائے خود اس کی عبادتی شان کے مظہر ہیں ۔ زکاۃ، تزکیہ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے کہ زکاۃ، زکاۃ ادا کرنے والے کے جان و مال کی تطہیر کا سبب ہے جس طرح کہ احادیث میں اس کی وضاحت آتی ہے۔ اس کے لیے دوسرا لفظ ’’صدقہ‘‘ ہے جو بکثرت زکاۃ کے لیے استعمال کیا گیا ہے:
﴿ خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا ﴾
’’(اے نبی!) آپ ان کے مالوں سے صدقہ (زکاۃ) لے کر ان کے مالوں کو پاک اور ان کے نفوس کا تزکیہ کر دیں ۔‘‘[1]
ظاہر ہے کہ صدقہ اسی کو کہتے ہیں جو محض اللہ کے لیے اور ثواب کی نیت سے ادا کیا جائے اور یہ اجروثواب کی نیت ہی اس کے عبادت ہونے کی ایک بڑی دلیل ہے۔ ٹیکس کو نہ کسی نے کبھی صدقے سے تعبیر کیا ہے نہ اس کی ادائیگی میں اجروثواب کی نیت ہوتی ہے۔ پھر یہ بات بھی نہیں کہ ٹیکس کے لیے عربی زبان میں کوئی لفظ نہ آتا ہو اور الفاظ کی تنگ دامانی کی وجہ سے ٹیکس کو زکاۃ ہی سے تعبیر کر دیا گیا ہو۔ بلکہ ٹیکس کے لیے عربی میں عام طور پر ضریبہ (جمع ضرائب) بولا جاتا ہے۔ اس سے اجتناب ہی اس
|