’’انسان کو چاہیے کہ وہ زکاۃ دینے کے لیے فقراء و مساکین اور غارمین وغیرہم میں سے ایسے مستحق لوگوں کو تلاش کرے جو دیندار اور شریعت کے پیروکار ہوں ۔ پس جو بدعت یا فسق و فجور کا اظہار کرے تو وہ تو اس سزا کا مستحق ہے کہ اس سے تعلق توڑ لیا جائے اور اس سے توبہ کروائی جائے، وہ مدد کا مستحق کیوں کرہوسکتا ہے؟۔‘‘[1]
شیخ الاسلام آگے چل کر فرماتے ہیں :
((وَمَنْ لَّمْ یَکُنْ مُّصَلِّیًا أُمِرَ بَالصَّلٰاۃِ، فَإِنْ قَالَ، أَنَا أُصَلِّي، أُعْطِيَ وَإِلَّا لَمْ یُعْطَ))
’’جو بے نمازی ہو، اسے نماز پڑھنے کی تلقین کی جائے، اگر وہ کہے میں نماز پڑھوں گا، تو اسے زکاۃ کی رقم دے دی جائے، اگر وہ نماز پڑھنے کا اقرار نہ کرے تو اسے نہ دی جائے۔‘‘[2]
اور اللہ کے دین کا مذاق اڑانے والے، منکرات کا کھلم کھلا ارتکاب کرنے والے اور گمراہی سے باز نہ آنے والے بھی اسی حکم میں شامل ہوں گے۔ جو علماء مذکورہ قسم کے افراد کو زکاۃ دینا جائز قرار دیتے ہیں ، وہ بھی مطلقًا اس کے قائل نہیں ہیں ، بلکہ وہ بھی یہ کہتے ہیں کہ اگروہ زکاۃ کی رقم اپنے فسق و فجور ہی پر خرچ کریں اور اس سے اللہ کی نافرمانی ہی کا ارتکاب کریں ، تو اس صورت میں وہ ہرگز زکاۃ کے مستحق نہیں ہیں ۔ہاں اگر ان کی اصلاح کی امید ہو یا وہ اپنی اصلاح کرنے کا وعدہ کریں ، تب انہیں زکاۃ کی رقم دینا جائز ہوگا۔ یوں ان حضرات کا موقف بھی امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
|