تاجر ہوں … تجارت کا مال نئے یا پرانے کپڑے ہوں ، یا کھانے پینے کا سامان… ہر قسم کا غلہ، پھل فروٹ، سبزی، گوشت وغیرہ… مٹی چینی دھات وغیرہ کے برتن ہوں یا جاندار چیزیں غلام، گھوڑے، خچر اور گدھے وغیرہ… گھر میں پلنے والی بکریاں ہوں یا جنگل میں چرنے والے ریوڑ، غرض تجارت کے ہر قسم کے مال میں زکاۃ فرض ہے۔ علاوہ ازیں شہری اموالِ تجارت بیشتر اموالِ باطنہ ہیں ، جبکہ (مویشی) جانوروں کی اکثریت اموالِ ظاہرہ ہیں ۔‘‘[1]
امام بخاری کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم کے مالِ تجارت میں اور پھلوں میں زکاۃ ہے، چنانچہ اپنی ’’صحیح‘‘ میں انہوں نے باب قائم کیا ہے:
((باب صدقۃ الکسب والتجارۃ))
’’کمائی اور تجارت میں زکاۃ کا بیان‘‘
اور اس عنوان کے لیے دلیل قرآن کریم کی اس آیت سے لی ہے:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ﴾
’’اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی سے خرچ کرو اور اس سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا۔‘‘[2]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’امام بخاری نے جو باب باندھا ہے، اس میں صرف آیتِ قرآنی سے استدلال کیا ہے اور کوئی حدیث پیش نہیں کی۔ یہ گویا انہوں نے ان آثار کی
|