Maktaba Wahhabi

614 - 625
ان کے گھر میں تھے،تاکہ میں دیکھوں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نمازِ تہجد کیسے پڑھتے ہیں۔وہ فرماتے ہیں: ﴿فَتَحَدَّثَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم مَعَ أَھْلِہٖ سَاعَۃً ثُمَّ رَقَدَ۔۔۔)) [1] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجۂ محترمہ سے باتیں کیں اور پھر سو گئے۔‘‘ اس حدیث سے یوں استدلال کیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ عشا کے بعد گھر تشریف لے گئے تھے اور گھڑ ی بھر کے لیے گھر والوں سے باتیں کی تھیں۔ صاحبِ ’’نیل الأوطار‘‘ تو لکھتے ہیں: ’’اس حدیث کو انھوں نے اپنے لیے دلیل بنایا ہے،جو نمازِ عشا کے بعد مطلقاً باتوں کے جواز کے قائل ہیں،وہ خیر و طاعت کی ہوں یا عام باتیں ہوں۔ممکن ہے کہ یہ واقعہ جواز کے لیے ہی ہو۔تاکہ ممانعت والی احادیث کو نہی تحریمی پر محمول نہ کیا جائے۔‘‘[2] یہاں یہ بات بھی واضح کر دیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے تھے اور بھانجے کا خالہ کے گھر میں اس طرح رات رہنا بلاشبہہ ممکن ہے،کیوں کہ خالہ محرمات میں سے ہوتی ہے اور وہ تو ان کی صرف خالہ ہی نہیں،بلکہ اُمّ المومنین بھی تھیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے کتاب العلم کے باب(40 اور 41) میں اسی طرح ’’کتاب مواقیت الصلاۃ‘‘ کے باب(40 اور 41) میں خیر و بر اور تعلیم و تعلم کے لیے باتیں کرنے کے جواز پر دلالت کرنے والی احادیث ذکر کی ہیں۔جب کہ ’’کتاب مواقیت الصلاۃ‘‘ کے باب(39) میں حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ والی حدیث نقل کی ہے اور اس طرح باب باندھا ہے: ’’بابُ مَا یُکْرَہُ من السَّمَرِ بَعْدَ الْعِشَآئِ‘‘ اس طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے واضح کر دیا کہ عام مباح باتوں میں راتوں کو جاگتے رہنا تو مکروہ ہے،البتہ خیر و بر کی باتوں کے لیے یہ جائزہے۔چنانچہ کتاب العلم کے چالیسویں باب میں اُمّ المومنین حضر ت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث لائے ہیں،جس میں وہ فرماتی ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter