Maktaba Wahhabi

609 - 625
1۔ فجر پڑھنے سے پہلے پہلے۔یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما،امام عطاء،مسروق،حسن بصری،نخعی،مکحول قتادہ،مالک،شافعی،احمد،اسحاق،ابو ایوب اور ابو حنیفہ رحمہم اللہ کا مسلک ہے،جیسا کہ قیام اللیل للمروزی میں منقول ہے۔ 2۔ دن یا رات کو جب بھی موقع ملے،قضا کر لے۔شافعیہ کا فتویٰ اسی پر ہے۔ 3۔ سونے یا بھولنے کی شکل اور جان بوجھ کر چھوڑنے کی شکل میں تفریق۔ امام ابن حزم رحمہم اللہ نے کہا ہے کہ سونے یا بھولنے کی شکل میں دن یا رات کے کسی وقت میں جاگے یا یاد آئے تو پڑھ لے اور جان بوجھ کر چھوڑنے کی صورت میں جب اس پر فجر طلوع ہو جائے تو وہ اسے قضا کر ہی نہیں سکتا۔ وتر کے علاوہ دیگر نوافلِ راتبہ یعنی سنن مؤکدہ کی قضا کے بارے میں بھی اہلِ علم کے کئی اقوال ہیں: 1۔ عذر سے قضا ہوں یا بلا عذر،مطلقاً ان کی قضا مستحب ہے۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما،عطاء،طاؤس،قاسم بن محمد،ابن جریج،اوزاعی،قول جدید میں امام شافعی،احمد،اسحاق،محمد بن حسن(تلمیذ امام ابو حنیفہ ) اور مزنی رحمہم اللہ کا یہی مسلک ہے۔ 2۔ ان کی قضا نہیں ہے۔یہ امام ابو حنیفہ،مالک،مشہور روایت کے مطابق ابو یوسف،قدیم کے مطابق امام شافعی اور ایک روایت کی رو سے امام احمد رحمہم اللہ کا بھی مسلک ہے۔امام مالک کا مشہور مسلک یہ ہے کہ فجر کی سنتوں کو طلوعِ آفتاب کے بعد قضا کیا جائے۔ 3۔ مستقل بالذات اور تابع لغیر میں تفریق۔یعنی نمازِ عید و نمازِ ضحی وغیرہ کی قضا ہے اور فرض نمازوں کی سنن موکدہ کی قضا نہیں ہے۔یہ امام شافعی رحمہم اللہ کا ایک قول ہے۔ 4۔ اختیار ہے،چاہے تو قضا کرلے اور چاہے تو نہ کرے۔یہ احناف اور امام مالک رحمہ اللہ سے مروی ہے۔ 5۔ نیند و بھول کے عذر اور بلا عذر قضا میں تفریق،عذر پر قضا ہے۔بلا عذر یعنی عمداً پر قضا نہیں ہے۔یہ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کا مذہب ہے اور جمہور کا کہنا ہے کہ جب عذر پر قضا ہے تو عمداً بلا عذر پر بالاولیٰ قضا ہے۔[1] واﷲ أعلم
Flag Counter