Maktaba Wahhabi

592 - 625
’’پس ہم سب وادیِ بطحان کی طرف گئے۔نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے وضو کیا اور ہم سب نے بھی اسی غرض کے لیے وضو کیا تو سورج غروب ہوجانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ عصر پڑھی،پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز پڑھی۔‘‘ اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ بات اخذ کی ہے کہ وقت گزرنے کے بعد بھی جب کوئی نماز پڑھی جائے تو اس کی جماعت کرانا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے،کیوں کہ حدیثِ مذکور کی رو سے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز غروبِ آفتاب کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مل کر جماعت سے پڑھی تھی۔یہی وجہ ہے کہ فتح الباری میں شارح بخاری لکھتے ہیں: ’’اس حدیث میں قضا نمازوں کو باجماعت ادا کرنے کے استحباب کی دلیل ہے۔اکثر اہلِ علم کا یہی قول ہے،سوائے لیث کے۔اگرچہ وہ بھی نمازِ جمعہ کی قضا کی صورت میں اسے باجماعت ادا کرنے کے قائل ہیں اور ہر قضا نماز کے لیے اقامت کو بھی روا سمجھتے ہیں۔(البتہ وہ ہر قضا کے لیے جماعت کے حق میں نہیں ) جب کہ یہ حدیث اور بعض دیگر احادیث جماعت کے استحباب کے قائلین کی مؤید اور امام لیث کی رائے کے سراسر خلاف ہیں،جن میں سے ایک حدیث تو وہی ہے،جو صحیحین اور بعض دیگر کتبِ حدیث کے حوالے سے ’’قضا نماز کے لیے اذان‘‘ کے موضوع کے ضمن میں گزر چکی ہیں،جس میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے نمازِ فجر سے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور لشکرِ اسلامی کے سوئے رہ جانے کا واقعہ بیان کیا ہے اور وہ نماز سب نے طلوعِ آفتاب کے بعد باقاعدہ اذان اور اقامت کے ساتھ باجماعت ادا کی تھی۔ ’’فجر سے سوئے رہ جانے والا واقعہ بھی کسی ایک حدیث میں نہیں،بلکہ متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی احادیث میں آیا ہے اور سوائے دو ایک میں اذان کا ذکر نہ ہونے کے(جیسا کہ اس کا جواب بھی ذکر کیا جا چکا ہے) سبھی صحابہ رضی اللہ عنہم کی مرویات میں اذان و اقامت اور جماعت کا ذکر ہے۔اگر سوئے رہ جانے والے واقعہ کو صرف ایک مرتبہ ہی شمار کیا جائے تو یہ کہا جائے گا کہ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس واقعہ کو اپنے اپنے انداز سے بیان فرمایا ہے،جب کہ یہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ وہ واقعہ ایک ہی مرتبہ پیش آیا ہو،بلکہ عین امکان
Flag Counter