Maktaba Wahhabi

588 - 625
اس طرح ان الفاظ نے وہ اختلافی مسئلہ بھی حل کر دیا،جو اوقاتِ نماز اور اوقاتِ مکروہہ سے تعلق رکھتا ہے،یعنی اگر کبھی کسی کے سوئے رہ جانے یا بھول جانے سے کسی کی نماز رہ جائے تو محض یاد آتے ہی یا بیدار ہوتے ہی پڑھ سکتا ہے۔وہ چاہے وقتِ کراہت ہی کیوں نہ ہو،جس کے دلائل قریب ہی گزرے ہیں۔فقہا(احناف) میں سے جو لوگ کہتے ہیں کہ وقتِ کراہت کو گزرنے دیا جائے،وہ اس پر اسی واقعے سے استدلال کرتے ہیں تو ان کے استدلال کا ضعف صحیح بخاری اور سنن ابی داود کی حدیث کے ان الفاظ نے واضح کر دیا ہے۔ الغرض اس واقعے پر مشتمل حدیث سے معلوم ہوگیا کہ وقت گزر جانے کے بعد قضا کی جانے والی نماز کے لیے بھی اذان کا کہنا ثابت ہے،اس حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں یوں تبویب کی ہے: ’’باب الأذانِ بعد ذھابِ الوقتِ‘‘ یعنی کسی نماز کا اصل وقت گزر جانے کے بعد اذان کہنے کا بیان۔ صحیح بخاری میں امام موصوف کی یہ عادت ہے کہ کسی اختلافی مسئلے میں حکم پر مشتمل ایسی تبویب نہیں کرتے،سوائے اس کے کہ ان کے نزدیک کسی حکم کے دلائل قوی و راحج ہوں۔حافظ عسقلانی شارح بخاری کے نزدیک یہاں ایسا ہی ہے کہ مولف کے نزدیک اذان کہنے کے دلائل قوی ہیں،لہٰذا امام بخاری نے تبویب ہی میں حکم بیان کر دیا ہے۔ ایسے ہی بعض احادیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر نماز نہیں پڑھی تھی،بلکہ اس سے آگے نکل گئے تھے اور وہاں جاکر فجر کی نماز پڑھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جگہ سے کوچ کر جانے اور آگے کہیں جاکر نماز پڑھنے سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے کہ یہ وقتِ کراہت کے گزارنے کے لیے تھا،لیکن یہ استدلال بھی درست نہیں ہے،کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جگہ سے کوچ کر جانے کا سبب خود ان احادیث میں مذکور ہے،جیسا کہ صحیح مسلم،سنن نسائی،بیہقی اور مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ﴿لِیَأْخُذْ کُلُّ رَجُلٍ برأْسِ رَاحِلَتِہِ فَإِنَّ ھٰذَا مَنْزِلٌ حَضَرَنَا فِیْہِ الشَّیْطَانُ[1]
Flag Counter