Maktaba Wahhabi

566 - 625
میں تدفین عمل میں لائی جائے۔[1] امام نووی رحمہ اللہ نے جو یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان اوقات میں نماز کے جواز پر اجماع ہے،ان کا یہ دعویٰ بھی صحیح نہیں،کیوں کہ یہ ایک معروف اختلافی مسئلہ ہے۔بلکہ بعض کبار محدّثین نے حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ والی اسی اوقات مکروہہ والی حدیث کے عموم سے ان اوقات میں نمازِ جنازہ پڑھنے کے بھی مکروہ ہونے پر استدلال کیا ہے اور اس حدیث سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی یہی بات سمجھی تھی،یہی وجہ ہے کہ بعض آثارِ صحابہ سے پتا چلتا ہے کہ وہ اوقاتِ مکروہہ میں نمازِ جنازہ نہیں پڑھتے تھے۔جیسا کہ موطا امام مالک اور سنن کبری بیہقی میں روایت ہے کہ زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا فوت ہوگئیں،جب کہ مدینہ طیبہ کے گورنر طارق تھے،جنازہ،نمازِ فجر کے بعد لایا گیا اور بقیع میں رکھ دیا گیا۔طارق نماز کو(غلس) اندھیرے میں پڑھا کرتے تھے۔محمد بن ابو حرملہ راویِ حدیث بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’إِمَّا أَنْ تُصَلُّوْا عَلٰی جَنَازَتُکُمُ الْآنَ،وَإِمَّا أَنْ تَتْرُکُوْھَا حَتَّیٰ تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ‘‘[2] ’’یا تو اپنے جنازے پر ابھی نماز پڑھ لو یا پھر سورج چڑھ آنے تک جنازہ پڑا رہنے دو۔‘‘ امام مالک رحمہ اللہ ہی نے موطا میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ اثر بھی روایت کیا ہے کہ انھوں نے کہا: ﴿یُصَلّٰی عَلَی الْجَنَازَۃِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الصُّبْحِ إِذَا اصُلِّیَتَا لِوَقْتَیْھِمَا[3] ’’نمازِ فجر و عصر کے بعد نمازِ جنازہ صرف اسی شکل میں پڑھی جاسکتی ہے،جب کہ ان نمازوں کو ان کے اوّل اوقات میں پڑھا جائے۔‘‘ اگر یہ نمازیں اپنے اصل اول وقت سے کچھ موخر کرکے وقتِ اختیار میں پڑھی جائیں اور سورج کی روشنی اور سہ پہر کی زردی پھیل جائے تو پھر ان کے بعد نمازِ جنازہ ٹھیک نہیں،بلکہ اسے مکروہ سمجھا گیا ہے۔ہاں اگر اول وقت میں پڑھی گئی ہو تو فوراً بعد میں ممکن ہے،جیسا کہ پہلے اثر میں وضاحت
Flag Counter