Maktaba Wahhabi

557 - 625
’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ عصر کے بعد خود تو(یہ دو رکعتیں) پڑھا کرتے تھے،لیکن دوسروں کو اس سے روکتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم(افطاری ترک کرکے روزوں کے مابین) وصال کیا کرتے تھے،لیکن دوسروں کو وصال کرنے سے روکتے تھے۔‘‘ اس حدیث کی سند کے تمام راوی تو ثقہ ہیں،لیکن محمد بن اسحاق مدلّس ہیں اور انھوں نے عنعنہ سے یہ روایت بیان کی ہے۔[1] اگر کوئی مدلّس راوی عنعنہ سے روایت بیان کرے تو محدّثین اسے ضعیف شمار کرتے ہیں اور اگر وہ تحدیث کی صراحت کر دے تو پھر تدلیس کی وجہ سے پیدا شدہ ضعف ختم ہوتا ہے،لیکن اس حدیث میں ایسا نہیں ہے،بلکہ حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا کو منکر کہا گیا ہے،کیوں کہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحیح سند کے ساتھ مسند احمد(6/ 135) میں مروی ہے کہ جب ان سے عصر کے بعد نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے اس کی اجازت دی۔نیز صحیح بخاری میں یہ ثابت ہے کہ وہ خود عصر کے بعد نماز پڑھا کرتی تھیں۔ یہ امور اس بات کی دلیل ہیں کہ ابن اسحاق والی اس روایت میں خطا اور نکارت پائی جاتی ہے۔یہ تو عصر کے بعد نماز پڑھنے کی نسبت سے ہے،البتہ اسی حدیث کا دوسرا حصہ جو روزوں میں وصال کرنے کی ممانعت کے بارے میں ہے تو وہ صحیحین میں متعدد صحابہ کرام سے مروی احادیث سے ثابت ہے اور جہاں تک عصر کے بعد نماز کا تعلق ہے تو اس کی ممانعت اس سے ثابت نہیں ہوتی،کیوں کہ یہ منکر اور ناقابلِ حجت ہے،پھر یہ حدیث بتاتی ہے کہ خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنے کے بعد یہ ممانعت صادر ہوئی،جب کہ حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی وفد بنی عبد القیس والی صحیحین کی سابق میں ذکر کردہ حدیث سے پتا چلتا ہے کہ مما نعت کا صدور پہلے سے تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دو رکعتیں اس کے بعد پڑھی تھیں۔ اس سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ عصر کے بعد ظہر کی دو رکعتوں کی قضا کاحکم منسوخ بھی نہیں ہواہے۔’’إعلام أہل العصر بأحکام رکعتي الفجر‘‘ میں علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے ان احادیث کے ضعف و انکار کے علاوہ بعض دیگر اسباب و علل بھی ذکر کیے ہیں۔
Flag Counter