Maktaba Wahhabi

539 - 625
اس سلسلے میں امام شافعی رحمہ اللہ اور فقہا و محدّثین کے ایک گروہ کا مسلک یہ ہے کہ یہ سب سببی نمازیں ان اوقات مکروہہ میں بھی جائز ہیں اور وہ بھی بلاکراہت،جب کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور بعض دیگر ائمہ و فقہا کے نزدیک یہ نمازیں بھی ممانعت والی احادیث کے تحت آتیں اور ممنوع ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے موافقین کا استدلال یوں ہے کہ جب یہ بات ثابت ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ ظہر کی بعد والی سنتیں نمازِ عصر کے بعد پڑھی تھیں،[1] اور یہ فوت شدہ سنتوں کی قضا کے بارے میں صریح ہے۔لہٰذا یہ سنن میں بالاولیٰ جائز ہے اور قضاے فریضہ میں بھی بالاولیٰ ہے اور یہی معاملہ نمازِ جنازہ کا بھی ہے۔[2] یہ امام نووی رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں،جو انھوں نے اختصار کے ساتھ فرمائے ہیں،جب کہ یہاں ہم تفصیل میں نہیں جانا چاہتے،بلکہ ان امور کی قدرے زیادہ تفصیلات مذکور نمازوں کے احکام و مسائل کے ضمن میں ذکر کی جائیں گی۔یہاں جو امام نووی رحمہ اللہ نے غیر سببی نمازوں کی ان اوقاتِ مکروہہ میں ادا کرنے کی کراہت پر اجماع کا دعوی کیا ہے،اس پر امام عسقلانی رحمہ اللہ نے تعاقب کرتے ہوئے ’’فتح الباري‘‘ میں لکھا ہے کہ یہ اجماع کا دعوی صحیح نہیں،کیوں کہ امام داود اور اہلِ ظاہر کا کہنا ہے کہ ان اوقات میں بھی مطلقاً نماز جائز ہے اور امام ابن حزم رحمہ اللہ نے بھی یہی بات بالجزم کہی ہے۔حافظ عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سلف صالحین کی ایک جماعت مطلقاً اباحت کی قائل رہی ہے اور وہ ممانعت و کراہت والی احادیث کو منسوخ قرار دیتے ہیں۔[3] اس طرح اجماع کا دعوی تو ثابت نہ ہوا۔یہی بات امام شوکانی رحمہ اللہ سے بھی مذکور کی ہے۔[4] البتہ جمہور اہلِ علم کے نزدیک ان اوقات میں نماز اور خصوصاً غیر سببی نماز ادا کرنا مکروہ ہے۔ہاں مذکورہ بالا سببی نمازیں تو الگ بات ہے۔یہی معاملہ اس صورت میں بھی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے گھر میں کسی وجہ سے نماز پڑھ لے اور مسجد میں چلا جائے،وہاں دیکھے کہ جماعت ہو رہی ہے تو وہ اس جماعت میں شامل ہو سکتا ہے،کیوں کہ اس بات پر دلالت کرنے والی وہ احادیث جن میں سے چار
Flag Counter