Maktaba Wahhabi

517 - 625
لکھا ہے کہ اس حدیث میں جو عموم ہے،وہ نمازِ فجر کے بارے میں اجماعِ امت سے مخصوص ہے،یعنی نمازِ فجر کا وقت صرف طلوعِ آفتاب تک رہتا ہے نہ کہ نمازِ ظہر تک۔طلوعِ آفتاب کے بعد وہ قضا ہوگی اور جن حضرات نے کہا ہے کہ نمازِ عشا کا آخری وقت ادا نصف رات تک ہے،فجر تک نہیں،وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ عشا کی نماز نصف شب والی احادیث کی وجہ سے خاص ہے،لہٰذا اس کا وقت بھی نمازِ فجر تک نہیں رہتا،جیسا اصطخری نے کہا ہے۔[1] محلّی میں علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے بھی ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس میں اس بات کی دلیل تو نہیں کہ عشا کا وقت نمازِ فجر تک رہتا ہے یا ہر نماز کا وقت اگلی نماز تک رہتا ہے،بلکہ تمام علماے امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ فجر کا وقت صرف طلوعِ آفتاب تک رہتا ہے،نہ کہ ظہر تک۔[2] یہی معاملہ نمازِ عشا کا بھی ہے کہ نصف شب تک ہی اس کا وقت رہتا ہے۔امام شوکا نی رحمہ اللہ نے ’’نیل الأوطار‘‘ میں تو یہی موقف اختیار کیا ہے کہ عشا کا آخری وقت فجر تک ہے،یعنی وقتِ اختیار نصف شب تک اور وقتِ جواز و اضطرار فجر تک ہے۔[3] جب کہ ’’السیل الجرار‘‘(1/ 183) بحوالہ ’’تمام المنۃ‘‘(ص: 142) میں امام شوکانی رحمہ اللہ نے،اسی طرح انھوں نے ’’الدرر البہّیۃ‘‘ میں رات کے نصف تک ہی عشا کا آخری وقت شمار کیا ہے۔علامہ نواب صدیق حسن خان نے بھی ’’الروضۃ الندیۃ شرح الدرر البہیۃ‘‘ میں ان کی موافقت ہی ظاہر کی ہے،کیوں کہ انھوں نے ان کے مذکورہ الفاظ پر کوئی تعاقب نہیں کیا۔[4] ’’بدایۃ المجتہد‘‘(1/ 183) میں علامہ ابن رشد رحمہ اللہ نے امام مالک کا ایک قول یہی روایت کیا ہے،جو اصطخری(یکے از شافعیہ) ابن حزم،شوکانی،علامہ صدیق حسن خان والی بھوپال اور شیخ البانی کا اختیار ہے۔ثلثُ اللیل،نصف اللیل،شطر اللیل اور قریب من نصف اللیل کے الفاظ والی احادیث جو حضرت جابر،انس،عبداللہ بن عمرو بن عاص،بریدہ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم سے
Flag Counter