Maktaba Wahhabi

498 - 625
٭ کسی نے ایک تہائی۔ امام مازری کے بقول ان میں سے مختلف اوقات و حالات میں مختلف حدود مراد لی جا سکتی ہیں،لیکن شرط یہ ہے کہ یہ حدود نمازِ ظہر کے آخری وقت کو نہ جا پہنچیں کہ وہ ظہر کے بجائے عصر محسوس ہونے لگے(جیسا کہ ہمارے پاک و ہند میں عموماً دیکھنے میں آتا ہے) گرمی کے ایام میں نمازِ ظہر کو تھوڑا تاخیر سے ادا کیا جائے اور عام حالات میں اسے اوّل وقت میں ادا کرنا ہی افضل ہے اور اس کا اوّل وقت سورج کا سر سے ڈھل جانا ہے۔حضرت جبرائیل علیہ السلام والی حدیث اور دیگر احادیث میں جو زوالِ آفتاب کے ساتھ ہی اوّل وقت کے آغاز اور کسی چیز کے سائے کے ایک مثل ہو جانے تک اس کے آخری وقت کا ذکر ہے،ان کے پیشِ نظر امام مالک،شافعی،احمد بن حنبل اور عام محدّثین کرام رحمہم اللہ نے اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے دونوں شاگردوں امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کا بھی یہی مسلک ہے اور ایک روایت کی رو سے تو خود امام صاحب کا بھی یہی مسلک ہے،لیکن مشہور قول کے مطابق امام صاحب کا مسلک یہ ہے کہ ظہر کا وقت تب تک رہتا ہے،جب تک ہر چیز کا سایہ دوگنا نہ ہو جائے۔ان کا استدلال حضرت انس و ابو ذر رضی اللہ عنہما سے مروی ان احادیث سے ہے،جن میں نمازِ ظہر کو ٹھنڈا کر کے ادا کرنے کا حکم ہے،مگر وہ روایات چونکہ مخصوص حالات اور صرف شدیدِ گرمی کے ایام کے بارے میں ہیں،لہٰذا ان سے اس مسئلے پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ خود علماے احناف مثلاً حضرت مولانا محمد زکریا سہارنپوری رحمہ اللہ نے ’’الکوکب الدري‘‘ میں لکھا ہے کہ احتیاط یہ ہے کہ ظہر کو ایک مثل سے پہلے پہلے ہی پڑھ لیا جائے۔[1] نمازِ ظہر کو موسم گرما میں کتنا موخر کیا جا سکتا ہے؟ اس کا کچھ اندازہ سنن ابی داود و نسائی اور مستدرکِ حاکم میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے ہوتا ہے،جس میں وہ فرماتے ہیں: ﴿کَانَ قَدْرُ صَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم الظُّھْرَ فِي الصَّیْفِ ثَلَاثَۃَ أَقْدَامٍ إِلٰی خَمْسَۃِ أَقْدَامٍ وَفِي الشِّتَائِ خَمْسَۃَ أَقْدَامٍ إِلٰی سَبْعَۃِ أَقْدَامٍ[2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ ظہر کا اندازہ یہ ہوتا ہے کہ گرمیوں میں انسان کا سایہ تین قدم
Flag Counter