Maktaba Wahhabi

73 - 430
بھی ضروری ہے، یہ بات علی الاطلاق یوں صحیح نہیں، بلکہ صحیح یہ ہے کہ جہاں جہاں دل کی نیت کے ساتھ ساتھ زبان کا اقرار وارد ہوا ہے، وہاں وہاں اقرار کیجیے، لیکن جہاں وارد نہیں ہوا، وہاں کے لیے کوئی اقرار خود ہی کیوں ایجاد کرتے ہیں، مثلاً روزہ افطار کرنے کی دعا (( اَللّٰہُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ )) وارد ہے اور ((ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ )) ثابت ہے۔ لہٰذا اُس وقت یہ اقرار کیجیے، لیکن روزہ رکھنے اور سحری کھانے کے وقت ایسا کوئی اقرار وارد نہیں، لہٰذا ’’وَبِصَوْمِ غَدٍ نَّوَیْتُ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ‘‘ جیسا اقرار ایجاد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کی تفصیل ہم ’’احکام و مسائلِ رمضان و روزہ‘‘ میں بیان کر چکے ہیں کہ روزہ رکھتے وقت صرف سحری کھا لینا ہی روزے کی نیت کے لیے کافی ہے، زبان سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ’’نماز و روزہ کی نیت‘‘ کے نام سے یہ رسالہ مستقل شکل میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ واللّٰه الحمد۔ افطاری ہی کی طرح بعض دیگر احکام میں بھی زبان سے ایسے اقرار وارد ہوئے ہیں اور وہاں جائز بھی ہیں۔ مثلاً حجِ بدل کے لیے احرام باندھتے وقت ’’لَبَّیْکَ عَنْ فُلَانٍ‘‘ یعنی اس شخص کا نام لے سکتے ہیں، جس کی طرف سے حج کریں، کیوں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ’’لَبَّیْکَ عَنْ شُبْرُمَۃ‘‘ کہتے سنا تو اس سے منع نہیں فرمایا اور نہ نکیر ہی کی، بلکہ پوچھا کہ ’’تم خود حج کر چکے ہو یا نہیں؟‘‘ نفی میں جواب ملنے پر فرمایا: پہلے خود اپنی طرف سے حج کرو ، پھر شبرمہ کی طرف سے کر لینا۔[1]
Flag Counter