Maktaba Wahhabi

107 - 430
احناف غیر موثوقہ دلائل سے استدلال کرتے ہیں۔[1] اگرمصنف ابن ابی شیبہ میں یہ حدیث اس اضافے سمیت موجود ہوتی تو وہ بھی ضرور نقل کرتے، جبکہ ان کی تصانیف بھی ان کی نقول سے بھری پڑی ہیں۔[2] ابن امیر الحاج جو وسعتِ مطالعہ و علم کے اعتبار سے اپنے استاذ ابن الہمام کے ہم پلہ ہیں، وہ ’’شرح المنیۃ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ سنت سے ثابت یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں پر باندھا جائے اور حضرت وائل رضی اللہ عنہ کی سینے پر ہاتھ باندھنے کا پتا دینے والی حدیث کے سوا کوئی حدیث ثابت نہیں ہے جو ہاتھ باندھنے کی جگہ کا پتا دے۔[3] ایسے ہی ’’البحر الرائق‘‘ میں ابنِ نجیم نے بھی کہا ہے اور اگر منصف ابن ابی شیبہ میں یہ حدیث اس اضافے کے ساتھ موجود ہوتی تو ابنِ امیر الحاج اسے ضرور نقل کرتے، جبکہ ان کی ’’شرح المنیۃ‘‘ ابن ابی شیبہ کی احادیث و آثار سے بھری پڑی ہے۔[4] یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ یہ سب معلومات شیخ محمد حیات سندھی نے بھی اپنے رسالے ’’فتح الغفور‘‘ میں جمع کی ہیں اور آخر میں لکھا ہے کہ یہ تمام امور زیرِ ناف والے اضافے کے غیر صحیح ہونے کا پتا دیتے ہیں۔[5] ابراہیم اور ملا علی قاری نے بھی یہ اضافہ کہیں نقل نہیں کیا۔[6] نتیجۂ بحث: علمِ حدیث کے بحرِ بے کراں علامہ البانی کے بقول: ’’نماز میں سینے پر ہاتھ
Flag Counter