Maktaba Wahhabi

99 - 430
’’انھوں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کود یکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پہلے) اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں کے اوپر رکھا، پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے سینے پر باندھا۔‘‘ صحیح ابنِ خزیمہ میں ہے: ’’میں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ کر اپنے سینے پر باندھا۔ (اور مسند بزار میں ہے کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو سینے کے پاس باندھا۔‘‘[1] امیر صنعانی نے ’’سبل السلام‘‘ میں اور امام شوکانی نے ’’نیل الأوطار‘‘ میں لکھا ہے کہ جن کا مسلک سینے سے نیچے ہاتھ باندھنے کا ہے، وہ اس حدیث سے کیسے استدلال کر سکتے ہیں، جبکہ اس حدیث میں تو سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر بالصراحت موجود ہے؟ لہٰذا یہ حدیث ناف سے اوپر اور سینے سے نیچے ہاتھ باندھنے کی نہیں بلکہ سینے پر ہاتھ باندھنے کی دلیل ہے۔ اکثر شافعی و حنبلی علماو محقّقین کا عمل اسی کے مطابق ہے۔ اسے آپ زیرِ بحث موضوع میں دوسرا قول بھی کہہ سکتے ہیں۔ پہلے قول والوں کے دلائل وہی ہیں جو دوسرے قول والوں کے ہیں اور علمائے تحقیق کا عمل بھی اسی پر ہے۔ لہٰذا اس مسئلے میں صرف دو ہی معروف مسلک رہ جاتے ہیں، پہلا سینے پر ہاتھ باندھنا اور دوسرا ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا۔ 2-دوسری دلیل: سینے پر ہاتھ باندھنے کی دوسری دلیل وہ حدیث ہے جس میں حضرت ہلب طائی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’میں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں جانب سے اور کبھی
Flag Counter