Maktaba Wahhabi

289 - 430
الوُسطٰی )) سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا انگوٹھا درمیانی انگلی کی جڑ کے قریب رکھا۔ اس طرح چار پانچ کے بجائے کل تین انداز ہی بنتے ہیں جو شروع میں ذکر کیے گئے ہیں اور یہی زیادہ ظاہر بات ہے۔ حضرت ابن عمر و ابن زبیر رضی اللہ عنہم سے مروی بعض احادیث میں جو انگلیوں کو بند کرنے کا ذکر تک وارد نہیں ہوا تو ان سے کسی الگ کیفیت کا پتا ہی نہیں چلتا، بلکہ وہ احادیث مطلق ہیں۔ انھیں ان احادیث پر محمول کیا جائے گا، جن میں انگلیوں کو بند رکھنے کی قید وارد ہوئی ہے۔[1] افضل انداز: امام بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت وائل رضی اللہ عنہ والی حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ہم اس حدیث میں مذکور کیفیت کو جائز قرار دیتے ہیں اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی پہلی کیفیت کو اختیار کرتے ہیں اور اس کے بعد حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی انداز کو مانتے ہیں، کیوں کہ ان دونوں پر مشتمل احادیث اور ان کی اسناد قوی ہیں۔[2] ایک تصحیح: ان تمام تفصیلات سے معلوم ہوا کہ قعدہ کے شروع میں بیٹھتے ہی دائیں ہاتھ کو اس انداز سے رکھنا چاہیے نہ کہ صرف کلمۂ شہادت کے وقت اور پھر ہاتھ کو کھولنا بھی نہیں چاہیے۔ علمائے احناف میں سے مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے اپنی معروف کتاب ’’بہشتی زیور‘‘ میں اسے ہی اختیار کیا ہے۔ چنانچہ موصوف نے لکھا ہے: ’’عقد و حلقہ کی ہیئت کو آخر نماز تک باقی رکھے۔‘‘[3]
Flag Counter