Maktaba Wahhabi

411 - 430
بھی ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیانِ جواز کے لیے چھوڑ دیتے ہوں گے۔[1] الغرض اس مسئلے میں وسعت ہے۔ اگر کوئی شخص صرف مغرب کے تین اور باقی نمازوں کے دو دو فرائض ہی پڑھتا جائے اور فجر کی سنّتیں اور نمازِ وتر ادا کر لے تو کافی ہے۔ اگر کوئی شخص سنّتیں اور دوسرے نوافل پڑھ لے تو بھی کوئی حرج نہیں۔[2] دورانِ سفر جمع بین الصلاتین: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مشروع کی ہوئی رخصتوں یا رعایتوں میں سے ہی ایک یہ بھی ہے کہ نمازی ظہر و عصر کی نمازیں ایک وقت میں، اسی طرح مغرب و عشا کی دونوں نمازیں بھی ایک وقت میں جمع کر کے پڑھ سکتا ہے، جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم، ابو داود، نسائی، بیہقی اور مسند احمد میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (( کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم اِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ اَنْ تَزِیْغَ الشَّمْسُ اَخَّرَ الظُّہْرَ اِلٰی وَقْتِ الْعَصْرِ ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ بَیْنَہُمَا، فَاِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ اَنْ َیْرَتَحِلَ صَلَّی الظُّہْرَ ثُمَّ رَکِبَ )) [3] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب زوالِ آفتاب سے پہلے سفر شروع کرتے تو نمازِ ظہر کو عصر کے وقت تک مؤخر کر دیتے، پھر کہیں رک کر دونوں نمازوں کو جمع کر کے پڑھ لیتے تھے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر پر روانہ ہونے سے قبل سورج سر سے ڈھل چکا ہوتا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز پڑھ کر سوار ہوتے تھے۔‘‘ جمع تاخیر: اس حدیث سے نمازِ ظہر و عصر دونوں کو نمازِ عصر کے وقت ادا کر لینے کے جواز
Flag Counter