Maktaba Wahhabi

304 - 430
کے فنِ حدیث میں غیر معمولی تبحّر حاصل کر لینے سے بعض مسائل کی قدیمی شکل میں فرق متحقّق ہوا ہے۔ اگر یہ فرق محض قیاس و رائے کی رُو سے پیش کیا جاتا تو قابلِ التفات و لائقِ اعتناء نہ ہوتا، لیکن ان مسائل میں عموماً ان کی بنیاد کسی نہ کسی نص پر ہے، اس لیے ان کی رعایت کیے بغیر بھی چارہ نہیں۔[1] لہٰذا محض متقدّمین علماکی تحقیق پر اڑے رہنے کے بجائے تحقیقاتِ جدیدہ میں وارد نصوصِ صحیحہ سے ثابت شدہ مسائل کو اپنا لینا چاہیے، کیوں کہ ائمہ اربعہ سمیت کبار فقہا اور تمام علمائے حدیث کا یہی مسلک ہے کہ جب صحیح حدیث مل جائے تو اسے لے لیا جائے اور اس پر عمل کر لیا جائے، یہ انتظار نہ کیا جائے کہ ہم سے پہلے اس پر کسی نے عمل کیا ہے یا نہیں؟ کیوں کہ حدیث و سنت کسی کے عمل سے ثابت نہیں ہوتی، بلکہ اس کے ثبوت پر عمل کیا جاتا ہے اوریہی اصولی قاعدہ ہے۔ قائلینِ درود شریف کے دلائل: امام شافعی رحمہ اللہ اور بعض دیگر ائمہ و فقہا قعدۂ اولیٰ میں درود شریف پڑھنے کے قائل ہیں۔ دورِ حاضر کے معروف محدّث علامہ محمد ناصر الدین البانی نے بھی اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ سید محب اللہ شاہ راشدی، شیخ الحدیث حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہم اللہ اور معروف محقّق و مفسّر حافظ صلاح الدین یوسف (صاحب تفسیر احسن البیان) نے بھی یہی رائے اختیار کی ہے۔ ان سب کا استدلال بعض قرآنی آیات اور متعدد احادیث سے ہے: پہلی دلیل: ارشادِ الٰہی ہے: ﴿إِنَّ اللّٰهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا
Flag Counter