Maktaba Wahhabi

192 - 430
الفاظ کے دورانِ نماز کہنے کا اس حدیث میں کوئی ثبوت نہیں، بلکہ یہ مطلق تلاوت کے وقت ہے۔ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اسے نماز سے الگ عام حالت ہی میں اپنایا جائے نہ کہ نماز میں۔ البتہ نماز میں کہنا ہو تو خاموشی سے کہا جا سکتا ہے۔ ایک غلط فہمی کا تذکرہ : یہاں بعض ایسے امور کا تذکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے جو بعض لوگوں میں بڑی سختی سے مروّج ہیں، لیکن دلیل ان کا ساتھ دینے سے قاصر ہے۔ مثلاً: بعض حضرات کا کہنا ہے کہ جب امام ذکر کی گئی ان مخصوص آیات کی تلاوت کرے جن کا جواب دینا بھی ثابت ہے تو امام و مقتدی سبھی ان کا جواب دیں اور جہری نمازوں میں مقتدی بھی جہراً جواب دیں، جبکہ ان احادیث سے یہ نتیجہ نکالنا کئی وجوہات کی بنا پر صحیح نہیں ہے۔ مثلاً: 1- اس سلسلے میں سب سے پہلے جو حدیث حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے ذکر کی گئی ہے، جس میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تسبیح و تعوّذ اور التجا و سوال کی آیات پر ایسا کرنے کا ذکر آیا ہے، اس میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسا کرنے کاذکر تو ہے لیکن مقتدیوں کو تو حکم نہیں دیا گیا۔ ہاں امام اور منفرد دونوں اس پر عمل کر سکتے ہیں، کیوں کہ یہ مستحب فعل ہے اور دونوں ہی مخاطب ہوتے ہیں۔ 2- حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث جس میں سورۃ الاعلیٰ کی پہلی آیت کے بعد (( سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی )) کہنے کا ذکر آیا ہے، اس میں بھی نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عملِ مبارک ذکر ہوا ہے۔ مقتدی کے بھی ایسا کرنے کی اس میں کوئی تصریح نہیں ہے۔ 3- موسیٰ بن ابی عائشہ والی حدیث میں بھی نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل نقل ہوا ہے، جو امام و منفرد کے لیے تو صحیح ہے، لیکن مقتدی کے لیے صریح و واضح نہیں ہے۔
Flag Counter