Maktaba Wahhabi

388 - 430
قصر واجب یا جائز؟ اس سلسلے میں تو تمام ائمہ و فقہا کا اتفاق ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ سفر میں نمازِ قصر ہی پڑھی ہے۔ البتہ اس بارے میں ائمہ کرام بلکہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں بھی دو طرح کی رائے پائی جاتی تھی کہ آیا سفر میں قصر واجب ہے یا صرف جائز؟ اور دورانِ سفر پوری نماز پڑھنا افضل ہے یا قصر کرنا افضل ہے؟ مذکورہ سابقہ اور اسی موضوع کی بعض دیگر احادیث کی بنا پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے حضرت عمر، علی، ابن عمر، ابن عباس رضی اللہ عنہم ، ائمہ تابعین میں سے حضرت عمر بن عبدالعزیز، قتادہ اور حسن بصری رحمہم اللہ اور ائمہ و فقہائے احناف رحمہم اللہ کے نزدیک سفر میں قصر واجب ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص سفر میں چار رکعتیں پڑھ لے اور وقت ہوتے ہوئے اسے حقیقتِ حال معلوم ہوجائے تو وہ نماز کا اعادہ کرلے اور قصر پڑھے۔ لیکن وجوبِ قصر کے وہ بھی قائل نہیں ، جبکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے حضرت عائشہ و عثمان اور ایک روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہم اور ائمہ مجتہدین میں سے امام مالک، احمد اور شافعی رحمہم اللہ کے نزدیک قصر واجب نہیں بلکہ محض رخصت ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ کے نزدیک اکثر اہلِ علم کی بھی یہی رائے ہے۔ ان کا استدلال ایک تو اس آیت سے ہے، جس میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ ﴾ [النساء: ۱۰۱] ’’اور جب تم لوگ سفر کے لیے نکلو تو کوئی مضائقہ و حرج نہیں کہ تم نماز میں قصر کر لو۔‘‘ ان کے نزدیک جناح یا مضائقہ و حرج وجوب پر نہیں بلکہ رخصت پر دلالت کرتے ہیں۔ ایسے ہی صحیح مسلم والی اس حدیث سے بھی ان کا استدلال ہے، جس میں
Flag Counter