Maktaba Wahhabi

361 - 430
کو انہی کی تائید میں ذکر کیا جا سکتا ہے اور وہ قائلینِ وجوب ہیں۔ بعض روایات میں عدمِ ذکر ہے جو عدمِ وجوب کا ثبوت نہیں ہوتا۔ ان تمام امور کو عدمِ وجو بِ درود شریف کے دلائل کے طور پر ذکر کر کے ان کے جوابات کے ضمن میں ہم بالتفصیل ذکر کر چکے ہیں، لہٰذا انھیں یہاں دہرانا تحصیلِ حاصل ہے۔ غرض سلام پھیرنے کو واجب ماننا ہی احادیث سے ثابت ہوتا ہے جو تین ائمہ اور جمہور اہلِ علم کا مسلک ہے اور تعاملِ امت بھی یہی ہے کہ سلام پھیرے بغیر کوئی نمازی اپنی نماز کو مکمل نہیں سمجھتا اور علمی اختلافات سے قطع نظر ہونا بھی یہی چاہیے۔ سلام پھیرنا: الغرض نمازی امام ہو یا مقتدی، یا چاہے وہ منفرد و اکیلا ہو، جماعت چھوٹی ہو یا بڑی، نماز فرض ہو یا نفل، وقت دن کا ہو یا رات کا، ہر موقع پر نمازی کو دونوںطرف سلام پھیرنا چاہیے۔ پہلے دائیں طرف منہ پھیر کر کہے: (( اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ )) (تم پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو) پھر بائیں طرف منہ پھیر کر کہے: (( اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ )) یہ دونوں طرف سلام پھیرنا مستحب اور سنت ہے، جبکہ بقول امام نووی رحمہ اللہ صرف ایک سلام واجب ہے، اور اس کا طریقہ بھی حدیث شریف میں آیا ہے۔ اگر کوئی صرف واجب ہی پر عمل کر لے اور سنت کو ترک کر دے تو کوئی حرج نہیں، اس کی نماز ہو جائے گی۔[1] جیسا کہ عرب ممالک میں عموماً نمازِ جنازہ میں ایک طرف ہی سلام پھیرا جاتا ہے۔ اور حدیث میں صحیح و ثابت بھی یہی ہے ۔البتہ امیر صنعانی نے ’’سبل السلام‘‘ میں عام نماز کے لیے دونوں طرف سلام پھیرنے کو واجب لکھا ہے۔
Flag Counter