Maktaba Wahhabi

70 - 430
تکبیرِ تحریمہ ہے نہ کہ کوئی دوسرے الفاظ۔ مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہ اللہ نے ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور، میں اپنا ایک فتویٰ شائع کروایا تھا، جس میں وہ لکھتے ہیں: ’’عقلاً بھی یہ (زبان سے نیت کرنا) بے معنیٰ سی بات معلوم ہوتی ہے۔ ذرا غور فرمائیے کہ ایک شخص گھر سے نماز کے ارادے سے چلا ہے، مسجد میں آ کر اس نے وضو کیا، اب قبلہ رو ہو کر نماز پڑھنے لگا ہے۔ اب اس کا تلفظ سے نیت کرنا ایسا ہی ہے، جیسا کہ کھانا شروع کرنے سے پہلے کوئی کہے: میں نیت کرتا ہوں کہ یہ کھانا کھاؤں، تا کہ پیٹ بھر جائے اور بھوک جاتی رہے، یا کپڑا پہنتے ہوئے یوں کہے: میں نیت کرتا ہوں کہ یہ کپڑا پہنوں، تا کہ میں اس سے بدن ڈھانکوں یا اس سے سردی سے بچاؤ حاصل کروں یا دھوپ کی تمازت سے بچ جاؤں۔ کیا کوئی عقل مند اس قسم کی نیتوں کو جو دل میں موجود ہیں، ان کے تلفظ کو صحیح اور قرینِ دانش سمجھے گا؟ ہر گز نہیں!‘‘ [1] سیدھا سادا اور آسان دین: دینِ اسلام کی تعلیمات انتہائی سیدھی، سادی، آسان اور فطرتی ہیں۔ جیسا کہ خود قرآنِ کریم میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ﴾ [الحج: ۷۸] ’’اور اس (اللہ) نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( اِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ )) [2]’’بے شک دین آسان ہے۔‘‘
Flag Counter