Maktaba Wahhabi

299 - 430
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب زندہ تھے تو صحابہ (( اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ )) کہتے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو وہ یہ کہنے لگے: (( اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ ))۔‘‘ [1] سلام کے ان دونوں صیغوں میں بظاہر تو معمولی سا فرق ہے کہ ایک میں خطاب کا صیغہ ہے تو دوسرے میں غائب کا، جبکہ اہلِ نظر کے لیے اس بظاہر معمولی فرق میں معانی کا ایک جہاں پوشیدہ ہے، جن کی روشنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ’’حاضر و ناظر‘‘ کا عقیدہ رکھنے والوں کی اس دلیل کی بھی قلعی خوب کھل جاتی ہے، اسی لیے اس کی کچھ اور تفصیل بھی ضروری ہے۔ چنانچہ علامہ سبکی نے ’’شرح المنہاج‘‘ میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ والی حدیث کو صرف ابو عوانہ کے حوالے سے ذکر کرکے لکھا ہے کہ اگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد (( اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ )) کے الفاظ کہنے ثابت ہو جائیں تو یہ اس بات کی دلیل ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد (( اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ )) کہنا واجب نہیں، بلکہ (( اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ )) بھی کہا جا سکتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ سبکی کا یہ کلام نقل کر کے لکھا ہے کہ یہ حدیث بلاشک و شبہہ صحیح و ثابت ہے (کیوں کہ یہ صحیح بخاری کی حدیث ہے)۔ ایک وضاحت: آگے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک اشکال کا حل اور ایک اعتراض کو وارد کر کے اس کی وضاحت بھی کی ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: ’’اب رہی وہ حدیث جو سنن سعید بن منصور میں ہے، جس میں ابو عبیدہ بن عبداللہ بن مسعود کے طریق سے ان کے والد حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ
Flag Counter