Maktaba Wahhabi

414 - 430
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ اپنی امت کو مشقّت میں مبتلا نہ کریں۔‘‘ پھر جمع حقیقی پر دلالت کرنے والی بکثرت احادیث بھی موجود ہیں، جن میں سے چند ایک سابق میں مذکور بھی ہوئی ہیں، لہٰذا جمع صوری پر بضد رہنا چہ معنیٰ دارد؟ نمازِ ظہر و عصر کی طرح ہی نمازِ مغرب و عشا کا معاملہ بھی ہے، جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (( کَانَ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَجْمَعُ بَیْنَ صَلَاۃِ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ فِی السَّفَرِ )) [1] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم دورانِ سفر مغرب و عشا کو جمع کر کے پڑھ لیا کرتے تھے۔‘‘ بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: (( کَانَ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَجْمَعُ بَیْنَ صَلاَۃِ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ اِذَا جَدَّ بِہِ السَّیْرُ )) ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفر کی جلدی میں مغرب و عشا جمع کر کے ادا کر لیا کرتے تھے۔‘‘ جبکہ بخاری و مسلم شریف کی ایک حدیث کے الفاظ ہیں: (( اِذَا اَعْجَلَ بِہِ السَّیْرَ )) [2] ’’جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر کی جلدی میں ہوتے۔‘‘ مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے کہ جب کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر طے کرنے کی جلدی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب و عشا کو جمع کر لیا کرتے تھے۔ اسی طرح صحیح بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسفر طے کرنے کی جلدی ہوتی تو مغرب کو مؤخّر کر دیتے، تاکہ مغرب و عشا کو جمع کر کے پڑھیں۔
Flag Counter